بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عنیزہ، جریر اور اصیرم نام رکھنا


سوال

1۔میں باپ بننے جا رہا ہوں۔  کیا میں اپنے بچے کے نام کے لیے شجرۂ محمد صلی اللہ علیہ و سلم استعمال کر سکتا ہوں؟ اگر ہاں تو مجھے ناموں کے معنی کے ساتھ شجرہ بھیجیں؟

2۔ ایک بچی کے معاملہ میں،  میں" عنیزہ "نام سے پیار کرتا ہوں،  لیکن اس نام کا مطلب نہیں جانتا، اس نام کا مطلب بتائیں؟اگر آپ کے پاس اسلامی  ناموں  سے متعلق کتابوں کی   pdf فائل ہے تو براہ کرم شیئر کریں۔

3۔کیا میں اپنے بچے کا صرف "محمد"نام  رکھ سکتا ہوں؟ "جریر" رضی اللہ عنہ اور" اصیرم"رضی اللہ عنہ کا کیا مطلب ہے؟  کیوں کہ میں  اپنے بچوں کے یہ نام رکھنا  چاہتا ہوں۔

جواب

1۔سرکارِدوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا سلسلہ نسب  عدنان تک مسلم ہے اور وہ یوں ہے:

"محمدبن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف بن قصی بن کلاب بن مرۃ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہربن مالک بن النضربن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزاربن معدبن عدنان۔"(بخاری)

مذکورہ بالا ناموں میں سے جس نام کا سائل انتخاب کرے، کسی عالم دین سے اس کا ترجمہ معلوم کرکے رکھ  سكتا هے۔

2۔ ”عنیزہ “زمانہ جاہلیت کی ایک عورت کا نام ہے،نیز عرب کے ایک قبیلے کا نام بھی  ہے اور عربی زبان میں ’’عنیزہ‘‘ کا معنی ہے: بہت دور ہونے والی عورت اور  ’’عنز‘‘  عربی زبان میں بکری کو کہتے ہیں، اس کی جمع ’’عناز‘‘ بھی آتی ہے، بہر صورت یہ نام مناسب نہیں ہے،اس کی جگہ کوئی اچھا بامعنی نام رکھ لیں۔

3۔بچے کا"محمد" نام رکھنا جائز،  بلکہ پسندیدہ اور باعث ِ برکت  ہے۔

’’جریر‘‘کے معنیٰ لگام کے آتے ہیں، یہ نام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ناموں میں سے ہے، ایک مشہور صحابی تھے،  جن کا نام ’’جریر بن عبد اللہ ‘‘ تھا، یہ نام رکھنا درست،  بلکہ باعثِ برکت ہے۔

’’اُصَیرِم ‘‘كا معنی تیز طرار ہونا، مستقل مزاج ہونا، سخت مزاج ہونا"ہے،  اصرم اور اصیرم دو صحابی ہیں، بچے کا یہ  نام رکھنا درست ہے۔

حضرت اصیرم رضی اللہ عنہ کی فضیلت:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ لوگوں سے پوچھا کرتے تھے کہ ایک ایسے آدمی کے متعلق بتاؤ جو جنت میں داخل ہوگا ، حال آں کہ اس نے نماز بھی نہیں پڑھی؟ لوگ جب اسے شناخت نہ کرسکتے  اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھتے کہ: وہ کون ہے ؟ تو آپ فرماتے :’’اصیرم‘‘،  جس کا تعلق بنو عبدالاشہل سے تھا اور اس کا نام عمرو بن ثابت بن وقش تھا۔ حصین کہتے ہیں کہ میں نے حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ’’اصیرم‘‘ کا کیا واقعہ ہوا تھا؟ انہوں نے فرمایا کہ: وہ اپنی قوم کے سامنے اسلام لانے سے انکار کرتا تھا، غزوہ احد کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب جبل احد کی طرف ہوئے تو اسے اسلام کی طرف رغبت ہوئی اور اس نے اسلام قبول کر لیا،  پھر تلوار پکڑی اور روانہ ہوگیا، وہ لوگوں کے پاس پہنچا اور لوگوں کی صفوں میں گھس گیا اور اس بے جگری سے لڑا  کہ بالآخر زخمی ہو کر گر پڑا، بنو عبدالاشہل کے لوگ جب اپنے مقتولوں کو تلاش کر رہے تھے تو انہیں میدان جنگ میں وہ بھی پڑا نظر آیا، وہ کہنے لگے کہ: واللہ یہ تو اصیرم ہے، لیکن یہ یہاں کیسے آگیا؟ جب ہم اسے چھوڑ کر آئے تھے تو اس وقت تک یہ اس دین کا منکر تھا، پھر انہوں نے اس سے پوچھا کہ عمرو! تم یہاں کیسے آگئے ؟ اپنی قوم کا دفاع کرنے کے لیے یا اسلام کی کشش کی وجہ سے ؟ اس نے کہا کہ :اسلام کی کشش کی وجہ سے،  میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آیا اور میں مسلمان ہوگیا،  پھر اپنی تلوار پکڑی اور روانہ ہوگیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم راہ جہاد میں شرکت کی، اب جو مجھے زخم لگنے تھے،  وہ لگ گئے، تھوڑی دیر میں وہ ان کے ہاتھوں میں دم توڑ گیا، لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اہلِ جنت میں سے ہے۔

نوٹ: ہماری ویب سائٹ پر بچوں کے اسلامی ناموں پر مشتمل کافی  ذخیرہ موجود ہے، اس سے استفادہ کیا سکتا ہے، ویب سائٹ پر اسلامی نام پر مشتمل  صفحہ  کھولنے کے لیے درج ذیل لنک پر کلک کریں:

اسلامی نام

لسان العرب میں ہے:

‌"وعنيزة اسم امرأة تصغير عنزة. وعنزة وعنيزة: قبيلة. قال الأزهري: عنيزة في البادية موضع معروف، وعنيزة قبيلة. قال الأزهري: وقبيلة من العرب ينسب إليهم فيقال فلان العنزي، والقبيلة اسمها عنزة."

(فصل العین المہملۃ، 5 / 384،ط:دار صادر)

المؤتلف والمختلف میں ہے:

"وأمَّا ‌عنيزة ، فهي التي ذكرها امرؤ القَيْس في قصيدته قفا نبك:

ويوم دخلت الخدر خدر ‌عنيزة … فقالت لك الويلات إنك مرجلي."

(‌‌باب عنترة وعتيرة وعنيْزة، 3 / 1725، ط: دار الغرب الاسلامی)

تاج العروس  میں ہے:

"(و) ‌الجرير: ‌حبل ‌من ‌أدم نحو (الزمام) ، ويطلق على غيره من الحبال المضفورة. وقال الهوازني: الجرير من أدم ملين يثنى على أنف البعير النجيبة والفرس. وقال ابن سمعان: أورطت الجرير في عنق البعير، إذا جلت طرفه في حلقت، وهو في عنقه، ثم جذبته، وهو حينئذ يخنق البعير، وأنشد:

حتى تراها في الجرير المورط ،سرح القياد سمحة التهبط

وفي الحديث: (أن الصحابة نازعوا جرير بن عبد الله زمامه، فقال رسول الله عليه وسلم: خلوا بين} جرير {والجرير) ؛ أي دعوا له زمامهه."

(باب الراء، فصل الجيم مع الراء، 10 / 400، ط: دار الهداية)

مسند أحمد میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: كان يقول: حدثوني عن رجل دخل الجنة لم يصل قط فإذا لم يعرفه الناس سألوه: من هو؟ فيقول: أصيرم بني عبد الأشهل عمرو بن ثابت بن وقش، قال الحصين: فقلت لمحمود بن لبيد: كيف كان شأن الأصيرم؟ قال: كان يأبى الإسلام على قومه ‌فلما ‌كان ‌يوم ‌أحد ‌وخرج ‌رسول ‌الله ‌صلى ‌الله ‌عليه ‌وسلم ‌إلى ‌أحد ‌بدا ‌له ‌الإسلام ‌فأسلم، ‌فأخذ ‌سيفه ‌فغدا ‌حتى ‌أتى ‌القوم ‌فدخل ‌في ‌عرض ‌الناس، ‌فقاتل ‌حتى ‌أثبتته ‌الجراحة، قال: فبينما رجال بني عبد الأشهل يلتمسون قتلاهم في المعركة إذا هم به، فقالوا: والله إن هذا للأصيرم، وما جاء؟ لقد تركناه وإنه لمنكر لهذا الحديث، فسألوه ما جاء به؟ قالوا: ما جاء بك يا عمرو، أحدبا (1) على قومك، أو رغبة في الإسلام؟ قال: بل رغبة في الإسلام، آمنت بالله ورسوله، وأسلمت، ثم أخذت سيفي فغدوت مع رسول الله فقاتلت حتى أصابني ما أصابني، قال: ثم لم يلبث أن مات في أيديهم، فذكروه لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: " إنه لمن أهل الجنة ."

(‌‌أحاديث رجال من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم،حديث محمود بن لبيد، 39 / 42، ط: الرسالة)

القاموس المحيط میں ہے:

"وأصرم أو ‌أصيرم الأشهلي، واسمه عمرو بن ثابت: صحابيان.وهو صرمة من الصرمات، أي بطيء الرجوع من غضبه."

(باب المیم، فصل الصاد، 1129، ط: مؤسسة الرسالة)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100853

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں