بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

یونیورسٹی میں مذاق میں نکاح کرلیا


سوال

یونیورسٹی میں ایک لڑکی نے کچھ دوستوں(جن کی تعداد پانچ ہے،ایک لڑکی،تین لڑکے اور ایک عیسائی لڑکا) کے سامنے ایک لڑکے سے نکاح کرنے کا کہا اور یوں کہا کہ" مجھے تم سے نکاح قبول ہے" اور اس لڑکے سے باتوں ہی باتوں میں بار بار اصرار کیا جاتا رہا کہ وہ بھی نکاح قبول کرنے  کے لیے" ہاں" کہہ دے۔لڑکا کیوں کہ اسلامی علوم سے واقف تھا،اور دینی شعار کا پابند تھا؛لہٰذا  خاموش رہا اور شرماتا رہا۔لڑکی نے لڑکے کو اصرار کرنے کے لیے شرائط کی پیشکش کی کہ وہ شادی کے بعد پردے کی پابندی کرے گی ،جینز پہننا چھوڑ دے گی،لڑکے کے لیے کھانا بنانا سیکھ جائے گی۔لڑکے کو اندازہ تھا کہ اس دوران قبول کرنے سے نکاح ہوسکتا ہے،اس لیے خاموش رہا اور احتیاط کرتا رہا،اس لیے لڑکے نے بات کو ٹالنے کے لیے یہ شرط بھی رکھی کہ وہ ایک سے زائد نکاح کرنے کا خواہش مند ہے،جس پر لڑکی نے کچھ دیر کے لیے خاموشی اختیار کی ،پھر اچانک سے اس نے کہا مجھے یہ بھی قبول ہے،اس پر لڑکے نے کہا اگر یہ بات ہے تو مجھے بھی قبول ہے۔یوں اس کے بعد لڑکی سے پھر پوچھا گیا کہ"کیا  تمھیں نکاح قبول ہے؟" اس پر لڑکی نے کہا کہ "ہاں ،قبول ہے"

1۔ کیا نکاح ہوگیا؟

2۔کیا وہ لڑکی اس لڑکے کے علاوہ کہیں اور شادی کرسکتی ہے؟

3۔کیا یہ بہتر نہیں کہ اب گھر والوں کی موجودگی میں تجدید نکاح کرکے رخصتی کی جائے؟

4۔اگر نکاح ہوگیا ہے تو لڑکے کی خواہش ہے کہ لڑکی نکاح میں برقرار رہے،جب کہ لڑکی تیار نہیں ہے،اس کا کہنا ہے کہ ہم لوگ صرف مذاق کر رہے تھے ،نکاح کرنا مقصود نہ تھا،ایسی صورت میں لڑکے کو کیا کرنا چاہیے؟

جواب

1۔صورت مسئولہ میں نکاح منعقد ہوگیا ہے۔

جب تک لڑکی  مذکورہ لڑکے کے نکاح میں  ہےاس  کے لیے جائز نہیں ہےکہ وہ     کسی اور جگہ نکاح کرے۔

3۔دوبارہ نکاح کی ضرورت نہیں ہے،تاہم اگر گھر والوں اور دیگر لوگوں کی تسلی اور تہمت سے بچنے  کے لیے تجدید نکاح  کرنا چاہیں  تو کر سکتے ہیں ۔

4۔نکاح ،خواہ مذاق میں کیا جائے یا سنجیدگی میں،دونوں صورتوں میں نکاح منعقد ہوجاتا ہے۔تاہم چوں کہ لڑکی ساتھ رہنے کے لیے تیار نہیں ہے تو لڑکے کو چاہیے کہ یا تو اس کو ساتھ رہنے کے لیے تیار کر لے،لیکن اگر وہ راضی نہ ہو تو   اس کو طلاق دیدے تاکہ لڑکی  بھی عزت کے ساتھ دوسری جگہ نکاح کر سکے۔ایسی صورت میں مذکورہ لڑکی پر عدت بھی نہیں ہے بشرطیکہ خلوت صحیحہ(کسی مانع کے بغیر تنہائی میں ملاقات) نہ ہوئی ہو۔

وفی فتح القدير:

"النكاح ينعقد بالإيجاب والقبول بلفظين يعبر بهما عن الماضي) قوله النكاح ينعقد بالإيجاب والقبول) قدمنا أن النكاح في عرف الفقهاء هو العقد، وهذا بيان لأن هذا العقد لم يثبت انعقاده حتى يتم عقدا مستعقبا لأحكامه، فلفظ النكاح في قوله النكاح ينعقد بمعنى العقد: أي ذلك العقد الخاص ينعقد حتى تتم حقيقته في الوجود بالإيجاب والقبول، والانعقاد هو ارتباط أحد الكلامين بالآخر على وجه يسمى باعتباره عقدا شرعيا ويستعقب الأحكام وذلك بوقوع الثاني جوابا معتبرا محققا لغرض الكلام السابق، ويسمع كل من العاقدين كلام صاحبه، والكلامان هما الإيجاب والقبول. فما قيل في تعريف الإيجاب إنه إصدار الصيغة الصالحة لإفادة ذلك العقد مع أنه صادق على القبول خلاف الواقع من العرف المشهور، بل إن الإيجاب هو نفس الصيغة الصالحة لتلك الإفادة بقيد كونها أولا والقبول هي بقيد وقوعها ثانيا من أي جانب كان كل منهما۔"

(کتاب النکاح،3/ 189،ط:دار الفکر)

وفي الفتاوى الهندية:

"أربع من النساء ‌لا ‌عدة عليهن: المطلقة قبل الدخول، والحربية دخلت دارنا بأمان تركت زوجها في دار الحرب والأختان تزوجهما في عقد واحد فيفسخ بينهما والجمع بين أكثر من أربع نسوة فيفسخ بينهن كذا في التتارخانية ناقلا عن الخزانة. العدة بالنساء بالإجماع كذا في التمرتاشي۔"

(كتاب الطلاق،الباب الثانی عشر فی العدۃ،1/ 526،ط:رشیدیۃ)

وفی فتح القدیر:

"العاشر: ينعقد النكاح من الهازل وتلزم مواجبه لقوله صلى الله عليه وسلم: «ثلاث ‌جدهن جد وهزلهن جد: النكاح والطلاق، والرجعة» رواه الترمذي من حديث أبي هريرة عن النبي - صلى الله عليه وسلم۔"

(كتاب النكاح،3/ 199،دار الفكر)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100140

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں