ایک شخص جو کہ برطانیہ کا شہری ہے اور یو نیورسٹی میں داخلہ لینا چاہتا ہے، برطانیہ میں وہاں کے شہریوں کے لیے برطانوی حکومت نے اسٹوڈنٹ لون ( قرض ) کی سہولت مہیا کی ہوئی ہے جو کہ یونیورسٹی کی فیس اور رہنےکے خرچوں کو پورا کرتی ہے،قرض کو لوٹانے کا طریقہ کار جو حکومت نے قائم کیا ہے وہ اس طرح ہے کہ:
(1) اسٹوڈنٹ یا اس کے گھرانے کی ماہانہ آمدنی دیکھی جائےگی۔
(2) آمدنی اگر ایک خاص رقم سے زیادہ ہوئی تو ہی قرض لوٹا یا جائےگا، ورنہ نہیں۔
(3) ماہانہ آمدنی کا جتنا حصہ اس خاص رقم سے زیادہ ہوا اس کا 9 فیصد ماہانہ کے حساب سے لوٹایا جائے گا۔
(4) قرض لوٹانے کا تقاضا پڑھائی مکمل ہونے کے بعد کیا جائے گا،30 سال کے بعد قرضہ معاف کر دیا جائےگا ۔
اب صورت مسئلہ مندرجہ ذیل ہے:
عبداللہ کی اپنی کوئی آمدنی نہیں لیکن اس کی والدہ کی آمدنی ماہانہ 2320 ہے،آمدنی کا وہ حصہ جو کہ 2083 سے زیادہ ہے یعنی 237، اس کا 9 فیصد،21.33 فیصد بنتا ہے پڑھائی مکمل ہونے کے بعد ہر مہینے ادا کیا جائےگا۔
اس دوران اگر آمدنی کم ہوئی تو کم ادا کیا جائے گا یا اگر 2083 سے نیچے چلی گئی تو کچھ بھی ادا نہیں کیا جائے گا، اسی طرح اگر عبداللہ اپنی والدہ کے گھر سے نکل کر اپنی ذاتی رہائش اختیار کرتا ہے تو اس کی اپنی آمدنی دیکھی جائےگی نہ کہ اس کی والدہ کی ۔
اگر اس کی آمدنی بڑھ جاتی ہے تو اس طرح جو حصہ ماہانہ 2083 کے اوپر ہوگا اس کا 9 فیصد ماہانہ ادا کیا جائے گا، عبداللہ کی پڑھائی جب مکمل ہو گی تو اسےامید ہے کہ اس کی تنخواہ سالانہ کم از کم 25000 اور زیادہ سے زیادہ 30000 ہوگی، جو کہ ماہانہ 2083کے حساب سالانہ25000 بنتا ہے، اور ماہا نہ2500 کے حساب سے 30000 سالانہ ہوگی۔ 25000 تنخواہ کی صورت میں اسے کچھ نہیں لوٹا نا ہو گا جب که 30000 سالانہ یعنی 2500 ماہانہ تنخواہ کی صورت میں اسے 37.53 ماہا نہ قرض کی ادائیگی کی مدمیں ادا کرنا ہوگا۔ یونیورسٹی کی فیس سالانہ 9250 ، تین سال کی فیس 27750 ہیں، اس میں رہنے کا خرچ شامل نہیں جو کہ الگ سے دیا جاتا ہے ،اگر زیادہ سے زیادہ تنخواہ جو کہ 30000 امید کی جارہی ہے اس اعتبار سے بھی سالانہ قرض جو کہ واپس کیا جائے گا وہ 450 ہوگا۔
عبداللہ اگر برطانیہ میں ہی رہتا ہے اور برطانیہ سے باہر نہیں جاتا ، باہر جانے کی صورت میں بھی قرض لوٹا نا نہیں ہوگا کیوں کہ برطانیہ میں کام کر نا اور ٹیکس دینا شرط ہے۔ برطانیہ میں رہتے ہوئے وہ اپنی لائن کی زیادہ سے زیادہ تنخواہ کماتا ہے تو وہ سال میں 13511 واپس کر پائے گا جس کے بعد قرضہ معاف کر دیا جائے گا ۔ اس اعتبار سے عبداللہ 27750 میں سے 13511 ہی واپس کر پائےگا۔
عبد اللہ کا فی الحال پڑھائی کے بعد برطانیہ میں مستقل کام کرنے کا اور رہنے کا ارادہ نہیں اور نہ ہی پورا قرض ادا کرنے کا ارادہ ہے چوں کہ یہ اختیار اسے حکومت نے دیا ہے۔
اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ عبداللہ کی آمدنی اس خاص رقم جو کہ اس وقت ماہانہ 2083 ( جو کہ آگے بڑھ جائےگی ) سے اتنی بڑھ جائے کہ 27750 جو کہ اس کے ذمہ قرض ہے،تو قرض کی ادائیگی اس سے زیادہ ہو جائے گی، جو کہ سود ہو جائےگا اگر چہ قرض لیتے وقت عبداللہ کی نیت تو قرض لوٹانے کی بھی نہیں، چہ جائے کہ سود دینے کی نیت ہو، جو اختیار اس کے پاس قواعد وضوابط کے مطابق ہے۔
کیا با مندرجہ بالا صورت کے اعتبار سے عبداللہ کے لیے حکومت سے یہ قرض لینا جائز ہوگا؟ جب کہ اس کی نیت لوٹانے کی نہیں یا کم از کم سود دینے کی نہیں اور اس کے پاس یونیورسٹی کی فیس اور خرچ کے پیسے نہیں اور وہ اس کے بغیر پڑھائی نہیں کر سکے گا؟
صورتِ مسئولہ میں سائل کے لیے مذکورہ طریقے سے قرض لینا جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ اگر سائل کی آمدنی مقررہ حد سے بڑھ جائے تو پھر اسے سود دینا پڑے گا ،اور یہ بات مجہول ہے کہ اس کی آمدنی کتنی ہوگی اس مقدار سے بڑھے گی یا نہیں، بہر حال اس قرض کی ادائیگی سود پر مشتمل ہے اورسود کی ادائیگی پر مشتمل قرض لینے کا معاملہ کرنا بھی از روئے شرع جائز نہیں ہے،لہذا سائل کے لیے اس طرح قرض لینا جائز نہیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشادہے:
"{وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا}."[البقرہ،۲۷۵]
ترجمہ:"اللہ تعالیٰ نے خرید و فروخت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے"۔
"{ یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبَا وَیُرْبِی الصَّدَقَاتِ}."[البقرہ،۲۷۶]
ترجمہ:اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔
حدیث شریف میں ہے:
"عن جابر، قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه، وقال: هم سواء".
(صحیح مسلم، باب لعن آکل الربوٰ و موکلہ، ج:3، ص: 1219 ، ط:داراحیاءالتراث العربی)
ترجمہ:"حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے لعنت بھیجی ہے سود کھانے والےپر، سود کھلانے والے پر، سودی معاملہ کے لکھنے والے پر اور سودی معاملہ میں گواہ بننے والوں پر اور ارشاد فرمایا کہ یہ سب (سود کے گناہ میں )برابر ہیں"۔
فتاوی شامی میں ہے:
"لأن الربا هو الفضل الخالي عن العوض".
(كتاب البيوع، باب خيار العيب، ج:5، ص:21، ط:سعيد)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144511100537
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن