بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

یونیفارم میں ٹائی کا لازم ہونا


سوال

میں اپنے بیٹے کا داخلہ جس اسکول میں کروانا چاہتا ہوں وہاں کے قوانین کے مطابق اسکول یونیفارم میں پینٹ شرٹ کے ساتھ ٹائی پہننا بھی لازمی ہے، ایسی صورتِ حال میں میرے لیے شریعت کا کیا حکم ہے کہ میں پہلے اسکول کے مالکان سے بات کروں کہ آپ اپنے اسکول سے ٹائی پہننے کی شرط  ختم کریں؟ یا اپنے صاحب زادے کا داخلہ کسی اور اسکول میں کراؤں، جب کہ یہ اسکول میرے گھر کے بہت قریب بھی ہے اور اس کی فیس بھی بہت مناسب ہے اور اس اسکول کا تعلیمی معیار بھی بہت بہتر ہے؟

جواب

واضح ہے کہ ٹائی کا استعمال، صلحاء، شرفاء کے لباس کا حصہ نہیں، بلکہ فساق و فجار یا ان سے مرعوب لوگوں کے لباس کا حصہ ہی سمجھا جاتا ہے اور جو لباس فساق و فجار کا شعار ہو یا اس میں فساق و فجار سے مشابہت نظر آتی ہو اس کو استعمال کرنا مکروہ ہے، کئی احادیثِ نبویہ سے ثابت ہے کہ   نبی کریم ﷺ نے کافروں کی مشابہت سے ممانعت فرمائی ہے اور ان کی مخالفت کا حکم دیا ہے، اور جو لباس دشمنانِ خدا سے مشابہت کا سبب بنے ایسے لباس کو ممنوع قرار دیا ہے۔

حدیثِ مبارک  میں ہے:

"قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: .... من تشبه بقوم فهو منهم."

(المسند الجامع، (الجھاد)، 10/716 ،رقم الحدیث؛8127،  دار الجیل، بیروت)

ترجمہ : حضورﷺ کا ارشاد ہے؛  جس شخص نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی  تو وہ شخص اسی قوم میں شمار ہوگا۔

ایک اور حدیثِ مبارک میں ہے:  

"إن هذه من ثیاب الکفار فلاتلبسها".

(مسلم، 3/1648، باب النھی عن لبس الرجل الثوب المعصفر،ط؛ داراحیاء التراث)

یعنی یہ کافروں کے(جیسے)  کپڑے ہیں، پس ان کو نہ پہننا۔

لہذا ٹائی  اگرچہ اب نصاری کا خاص شعار نہیں رہا، لیکن اب بھی یہ عموما کفار اور فساق کے لباس کا حصہ ہے، صلحاء اور علماء  کا  لباس  نہیں ہے، اس لیے  ٹائی کا استعمال ناجائز اور حرام تو نہیں، لیکن کراہت سے خالی  بھی نہیں ہے، اس کو پہننے سے اجتناب ضروری ہے۔

لہٰذا سائل کو چاہیے کہ اسکول والوں سے گزارش کرے کہ  وہ یونیفارم میں ٹائی کی  پابندی کو ختم کردیں، یا کم از کم  اپنے بیٹے کے لیے اس سے استثنا حاصل کرنے کی کوشش کرے، اگر وہ اس پر تیار نہ ہوں  تو  سائل کو چاہیے کہ  تھوڑی مشقت برداشت کرلے؛ لیکن بچے کی دینی تربیت اور ذہن سازی کے بڑے مقصد کے پیش نظر اپنے بیٹے کو کسی اور اسکول میں داخل کرادے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200269

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں