بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

انگلیاں پکڑنے یا کسی کے ہاتھ میں دینے سے طلاق نہیں ہوتی


سوال

 زید اور بکر  کی  آپس  میں  گہری  دوستی ہے، ایک  دن  زید  نے اپنے  ایک  دوست  کی دعوت پر اس کے  ہاں کھانا کھایا، واپس آکر بکر نے ان سے پوچھا کہ آپ کہاں گئے تھے؟ تو  زید نے  کہا کہ فلاں دوست نے کھانے کا اہتمام کیا تھا، اس کے ہاں کھانا کھانے گیا تھا، لیکن بکر کو زید کی اس بات پر بالکل بھی یقین نہیں آرہا تھا، بکر نے زید سے کہا کہ یہ کھانا تو آپ کے لیے نہیں بنا تھا، حالاں کہ یہ کھانا زید اور  دوسرے ساتھیوں کے لیے  ہی بنا تھا، لیکن بکر کو اس کے  بارے میں علم نہیں تھا، بکر نے زید سے کہا اگر یہ کھانا واقعی آپ کے لیےبنا تھا تو آپ میری یہ  تین انگلیاں پکڑ لیں، جس پر زید نے بکر کی تینوں انگلیاں پکڑ لیں۔ تین انگلیاں کنایہ کے طور پر طلاق کے لیے  استعمال ہوتی ہیں۔

اب یہ پوچھنا یہ ہے کہ

1۔یہ طلاق کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں؟ کیا زید کی بیوی پر  طلاق ہوگئی ہے  یا نہیں؟

2۔اگر کوئی اپنی طرف سے آپ کے لیے طلاق کے الفاظ اس طرح کہیں کہ اگر آپ نے یہ جھوٹ بولا ہو  یا فلاں کام کیا ہو  تو آپ پر آپ کی بیوی طلاق ہو، یا وہ اپنی  تین  انگلیاں آپ کے ہاتھ میں دے دے۔ تو کیا اس سے طلاق واقع ہوجاتی  ہے یا نہیں؟ مہربانی کر کے اس سلسلے میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب

1۔واضح رہے  کہ طلاق کے وقوع کے لیے حقیقتاً (زبان سے کہنا) یا حکمًا(مثلا تحریر لکھنا) طلاق  کے الفاظ کا ہونا ضروری ہے۔

لہٰذا صورتِ  مسئولہ  میں  زید  کے  بکر  کی  محض تین  انگلیاں پکڑنے  سے کوئی  طلاق  واقع  نہیں  ہوئی۔

2۔صورت مسئولہ میں کسی کو یہ جملہ کہنا کہ" اگر آپ نے یہ جھوٹ بولا ہو  یا فلاں کام کیا ہو  تو آپ پر آپ کی بیوی طلاق ہو"  تو صرف کسی کو یہ جملہ کہنے سے  اس شخص کی بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوگی ،ہاں اگر وہ شخص جواب  میں اپنی رضامندی ظاہر کردے مثلا یوں کہہ دے کہ" ٹھیک ہے"،  تو ایسی صورت میں  اگر اس نے  جھوٹ بولا ہو یا فلاں کام کیا ہو تو ایسی صورت میں  اس شخص کی بیوی پر ان الفاظ سے طلاق واقع ہوجائے گی،لیکن اگر  وہ کچھ نہ بولے یا انگلیاں کسی کے  ہاتھ میں دے دے تواس سے  طلاق واقع نہیں ہوگی،  جیسا کہ جزء نمبر ایک  میں مذکور ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"و أهله زوج عاقل بالغ مستيقظ وركنه لفظ مخصوص ...

(قوله: وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس والإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله أنت طالق هكذا كما سيأتي. وبه ظهر أن من تشاجر مع زوجته فأعطاها ثلاثة أحجار ينوي الطلاق ولم يذكر لفظا لا صريحا ولا كناية لا يقع عليه كما أفتى به الخير الرملي وغيره، وكذا ما يفعله بعض سكان البوادي من أمرها بحلق شعرها لا يقع به طلاق وإن نواه...."

(كتاب الطلاق،3/ 230،ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"وسئل أبو الليث عمن قال لجماعة: كل من له امرأة مطلقة فليصفق بيده فصفقوا فقال طلقن، وقيل ليس هو بإقرار.

جماعة يتحدثون في مجلس فقال رجل منهم: من ‌تكلم ‌بعد ‌هذا فامرأته طالق ثم تكلم الحالف طلقت امرأته لأن كلمة (من) للتعميم....

(قوله ثم تكلم الحالف) سكت عما إذا تكلم غيره والظاهر أنه لا يقع لأن تعليق المتكلم لا يسري حكمه إلى غيره إلا إذا قال الغير وأنا كذلك مثلا، وأما الفرعان السابقان فجعلا من الإقرار لا الإنشاء والتعليق إنشاء ...."

(کتاب الطلاق،3/ 295،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وأما ‌الحلف ‌بالطلاق، والعتاق، وما أشبه ذلك فما يكون على أمر في المستقبل فهو كاليمين المعقود، وما يكون على أمر في الماضي فلا يتحقق اللغو، والغموس، ولكن إذا كان يعلم خلاف ذلك، أو لا يعلم فالطلاق واقع، وكذلك الحلف ينذر؛ لأن هذا تحقيق، وتنجيز كذا في الإيضاح..."

(کتاب الأيمان،الباب الثاني،الفصل الأول،2/ 52،ط:رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100859

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں