بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

انگلیاں چٹخانے کا حکم/ روزے کی حالت میں مباشرتِ فاحشہ کا حکم


سوال

اُنگلی چٹخانا کیسا ہے ؟ عام حالت میں کیا بیوی کی شرم گاہ پر اپنا ذکر رگڑنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے یا غسل واجب ہو جاتا ہے؟

جواب

ہاتھ پیر  کی انگلیاں چٹخانا نماز کی حالت میں ہو یا  نماز کے لیے جاتے ہوئے ہو یامسجد میں نماز کے انتظار میں بیٹھے ہونے کی حالت میں  ہو مکروہِ تحریمی ہے، ابنِ ماجہ شریف کی حدیث میں اس سے منع کیا گیا ہے۔مذکورہ  حالتوں کے علاوہ عام حالات میں اگر ضرورت ہو (مثلاً تھکن کے وقت انگلیوں کو راحت پہنچانا ) توجائزہے،بلا ضرورت انگلیاں چٹخانے کو اکثر فقہاء  نے عبث کاموں میں شمارکیاہے۔

روزے کی حالت میں بیوی کی شرم گاہ سے مرد کا اپنی شرم گاہ (عضو مخصوص)کا ملانامکروہ ہے، چاہے انزال کا خوف ہو یا نہ ہو، اس لیے اس فعل سے احتراز لازم ہے۔

اگر دخول بھی نہ ہو اور انزال بھی نہ ہو توغسل لازم نہیں اور روزہ مکروہ ہوگا۔اور اگر روزے کی حالت میں اس عمل کی وجہ سے انزال ہوجائے تو غسل بھی واجب ہوگا اور روزہ بھی فاسد ہوجائے گا روزے کی قضا واجب ہوگی۔ اور اگر دخول ہوگیا تو روزے کی قضا اور کفارہ دونوں واجب ہوں گے۔

کفارے کی تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتویٰ ملاحظہ کیجیے:

روزے کا کفارہ کیا ہے؟

سنن ابن ماجہ میں ہے :

"عَنْ عَلِيٍّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا تُفَقِّعْ أَصَابِعَكَ وَأَنْتَ فِي الصَّلَاةِ".

ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  نماز میں اپنی انگلیاں مٹ چٹخاؤ۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 642):

"(قوله: وفرقعة الأصابع) هو غمزها أو مدها حتى تصوت، وتشبيكها هو أن يدخل أصابع إحدى يديه بين أصابع الأخرى، بحر. (قوله: للنهي) هو ما رواه ابن ماجه مرفوعاً: «لاتفرقع أصابعك وأنت تصلي»." وروى في المجتبى حديثاً: «أنه نهى أن يفرقع الرجل أصابعه وهو جالس في المسجد ينتظر الصلاة». وفي رواية: «وهو يمشي إليها». وروى أحمد وأبو داود وغيرهما مرفوعاً: «إذا توضأ أحدكم فأحسن وضوءهو ثم خرج عامداً إلى المسجد فلا يشبك بين يديه فإنه في صلاة»." ونقل في المعراج الإجماع على كراهة الفرقعة والتشبيك في الصلاة. وينبغي أن تكون تحريميةً للنهي المذكور، حلية وبحر، (قوله: ولا يكره خارجها لحاجة) المراد بخارجها ما ليس من توابعها؛ لأن السعي إليها والجلوس في المسجد لأجلها في حكمها كما مر؛ لحديث الصحيحين: «لا يزال أحدكم في صلاة ما دامت الصلاة تحبسه»." وأراد بالحاجة نحو إراحة الأصابع، فلو لدون حاجة بل على سبيل العبث كره تنزيهاً، والكراهة في الفرقعة خارجها منصوص عليها، وأما التشبيك فقال في الحلية: لم أقف لمشايخنا فيه على شيء، والظاهر أنه لو لغير عبث بل لغرض صحيح، ولو لإراحة الأصابع لا يكره، فقد صح عنه صلى الله عليه وسلم أنه قال: «المؤمن كالبنيان يشد بعضه بعضاً وشبك أصابعه»؛ فإنه لإفادة تمثيل المعنى، وهو التعاضد والتناصر بهذه الصورة الحسية".

فتح القدير لكمال بن الهمام - (4 / 324):

"( وإن أنزل بقبلة أو لمس فعليه القضاء دون الكفارة ) لوجود معنى الجماع ووجود المنافي صورة أو معنى يكفي لإيجاب القضاء احتياطًا، أما الكفارة فتفتقر إلى كمال الجناية لأنها تندرئ بالشبهات كالحدود ( ولا بأس بالقبلة إذا أمن على نفسه ) أي الجماع أو الإنزال ( ويكره إذا لم يأمن ) لأن عينه ليس بمفطر وربما يصير فطرًا بعاقبته فإن أمن يعتبر عينه وأبيح له، وإن لم يأمن تعتبر عاقبته وكره له، والشافعي أطلق فيه في الحالين، والحجة عليه ما ذكرنا، والمباشرة الفاحشة مثل التقبيل في ظاهر الرواية، وعن محمد أنه كره المباشرة الفاحشة؛ لأنها قلما تخلو عن الفتنة".

رد المحتار - (7 / 472):

"( قوله: وكره قبلة إلخ ) جزم في السراج بأن القبلة الفاحشة بأن يمضغ شفتيها تكره على الإطلاق: أي سواء أمن أو لا، قال في النهر: والمعانقة على التفصيل في المشهور، وكذا المباشرة الفاحشة في ظاهر الرواية، وعن محمد كراهتها مطلقًا، وهو رواية الحسن، قيل: وهو الصحيح". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109201841

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں