بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

یونین کا جرمانے کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے متعلق کہ ہمارے ہاں برف والوں کی یونین بنی ہوئی ہے،جس میں ایک قانون یہ ہے کہ اگراس میں سے کوئی  فرد یونین کے قانون کے خلاف کرتا ہے تو اس پہ مالی جرمانہ لگایا جاتا ہے،کیا یہ درست ہے؟اور بعض حضرات کا یہ کہنا کہ مالی جرمانہ صرف قاضی کے لیے لینا منع ہے،عوام اگر کوئی یونین بنائے تو وہ لے سکتے ہیں اس قول کی کیاحیثیت ہے؟اور اگر ناجائز ہے تو اس سے قبل جو لے چکے ہیں، اس کا کیا کریں؟ کیا اس کو واپس کرنا لازم ہے جس سے لیا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ مالی جرمانہ عائد کرنا کسی کے لیے بھی شرعاًجائز نہیں ہے خواہ قاضی ہو یا غیر قاضی ہو لہذا صورتِ مسئولہ میں یونین کے قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں   سے  جرمانہ وصول کرنا  ناجائز ہے،کیوں کہ یہ تعزیر بالمال ہے اور جوکہ ناجائز ہے ، جن سے جرمانے کی رقم وصول کی گئی ہے انہی کو مذکورہ رقم واپس کرنا لازم ہے۔

مجمع الأنہرمیں ہے:

"ولا یکون التعزیر بأخذ المال من الجانی فی المذهب۔"

(  کتاب الحدود ، باب التعزیر ،ج:1،ص:609،ط:بیروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"وأفاد في البزازية: أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدةً؛ لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لايجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي ... و في شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ."

( کتاب الحدود، باب التعزیر، ج: 4، صفحہ: 61، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100474

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں