بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عمرے پر جاتے ہوئے تجارتی سامان لے جانا


سوال

زید عمرے کی سعادت حاصل کرنا چاہتا ہے، لیکن زید کے لیے  خرچے کی رقم نا کافی ہونے کی وجہ سے اس سعادت کا حصول مشکل ہو رہا ہے۔ دوسری طرف ایک شخص حامد ہے، وہ یہ کام کرتا ہے کہ جو لوگ عمرہ کرنا چاہتے ہیں ، خرچے کی رقم کی کمی کی وجہ سے اُن کے لیے عمرے کے لیے جانا مشکل ہوتا ہے، ایسے حضرات و خواتین سے حامد  رابطہ کرتا ہے اور انہیں کچھ شرائط کے تحت اپنی طرف سے کچھ رقم دے کر عمرے کے لیے روانہ کرتا ہے۔ 

حامد کے کام کی تفصیل:  پاکستان سے سعودی عرب جانے والے عمرہ زائرین کو فی ٹکٹ پر اپنے ساتھ تقریباً چالیس سے پچاس کلو تک سامان لے جانے کی اجازت ہوتی ہے، حامد زید سے کہتا ہے کہ مثلاً آپ کو عمرے کے لیے دو لاکھ روپے کی رقم کی ضرورت ہے، اس میں سے ایک لاکھ روپے کا آپ انتظام کریں اور ایک لاکھ روپے میں اپنی طرف سے ادا کروں گا، البتہ اس کے لیے کچھ شرائط ہوں گی:

1۔ عمرے کے لیے جاتے ہوئے آپ کو چالیس سے پچاس کلو سامان اپنے ساتھ لے جانے کی اجازت ہوگی، تو آپ اس میں بیس سے پچیس کلو سامان تو اپنی ضرورت کا لے جائیں گے، بقیہ بیس سے پچیس کلو میرا سامانِ تجارت ہوگا، جو آپ اپنے ساتھ اپنے عمرے کے ٹکٹ پر لے جائیں گے۔

2۔ائیر پورٹ پر سامان کی تلاشی کے دوران اگر عملہ اس سامان کے بارے میں پوچھ گچھ کریں تو آپ یہ ظاہر کریں گے کہ یہ سامان آپ ہی کا ہے، رشتہ دار یا اپنی ضرورت کے لیے لے جایا جا رہا ہے۔

3۔ سعودی عرب میں داخل ہونے کے بعد میرا یہ سامان آپ وہاں پہنچائیں گے جہاں میں آپ کو بتاؤں گا، اس کے بعد آپ عمرے کی ادائیگی کے لیے روانہ ہوں گے۔

سوال یہ ہے کہ مذکورہ معاملہ کرنا شریعت کی رُو سے کیسا ہے؟ کیا اس میں کوئی قباحت ہے؟

جواب

واضح رہے کہ عمرے کے سفر پر جاتے ہوئے ذاتی سامانِ تجارت لے کر جانا یا کسی دوسرے شخص کے تجارت کے سامان کو اجرت کے عوض لے کر جانا جائز ہے جب کہ اصل نیت عبادت کی ہو، البتہ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ سامان اس قسم کا نہ ہو جس کا درآمد برآمد کرنا قانوناً ممنوع ہو، اور پکڑے جانے کی صورت میں اس سامان کی وجہ سے ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑے، نیز اس سامان کی وجہ سے کسی قسم کی غلط بیانی کرنے کی نوبت بھی نہ آئے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں زید کا ایک اجیر کے طور پر حامد کا سامان لے کر جانا تو درست ہے،  البتہ اس سامان کی وجہ سے ائیر پورٹ پر غلط بیانی کا ارتکاب کرنا پڑا، تو اس کا گناہ ملے گا،اور خاص طور پر عمرہ کے سفر میں ایسا کرنا بالکل ہی مناسب نہیں ہے۔

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"قال الله عقيب ذكر الحج والتزود له [ليس عليكم جناح أن تبتغوا فضلا من ربكم] يعني المخاطبين بأول الآية وهم المأمورون بالتزود للحج وأباح لهم التجارة فيه...وقال عمرو بن دينار قال ابن عباس كانت ذو المجاز وعكاظ متجرا للناس في الجاهلية فلما كان الإسلام تركوا حتى نزلت [ليس عليكم جناح أن تبتغوا فضلا من ربكم] في مواسم الحج وروى سعيد بن جبير عن ابن عباس قال أتاني رجل فقال إني آجرت نفسي من قوم على أن أخدمهم ويحجون بي فهل لي من حج فقال ابن عباس هذا من الذين قال الله تعالى [لهم نصيب مما كسبوا] وروي نحو ذلك عن جماعة من التابعين منهم الحسن وعطاء ومجاهد وقتادة ولا نعلم أحدا روي عنه خلاف ذلك إلا شيئا رواه سفيان الثوري عن عبد الكريم عن سعيد بن جبير قال سأله رجل أعرابي فقال إنى أكرى إبلى وأنا أريد الحج أفيجزيني قال لا ولا كرامة وهذا قول شاذ خلاف ما عليه الجمهور وخلاف ظاهر الكتاب في قوله [ليس عليكم جناح أن تبتغوا فضلا من ربكم] فهذا في شأن الحاج لأن أول الخطاب فيهم وسائر ظواهر الآي المبيحة لذلك دالة على مثل ما دلت عليه هذه الآية نحو قوله [وآخرون يضربون في الأرض يبتغون من فضل الله] وقوله [وأذن في الناس بالحج يأتوك رجالا وعلى كل ضامر- إلى قوله- ليشهدوا منافع لهم] ولم يخصص شيئا من المنافع دون غيرها فهو عام في جميعها من منافع الدنيا والآخرة وقال تعالى [وأحل الله البيع وحرم الربا] ولم يخصص منه حال الحج وجميع ذلك على أن الحج لا يمنع التجارة وعلى هذا أمر الناس من عصر النبي صلى الله عليه وسلم إلى يومنا هذا في مواسم منى ومكة في أيام الحج."

(أحكام سورة البقرة، ‌‌باب التجارة في الحج، ج:1، ص:386، ط:دار إحياء التراث العربي)

مسند احمد میں ہے:

"عن أبي أمامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ‌يطبع ‌المؤمن ‌على ‌الخلال ‌كلها ‌إلا ‌الخيانة ‌والكذب."

(مسند أحمد، ج:36، ص:504، رقم:22170، ط: مؤسسة الرسالة)

ترجمہ:" مؤمن ہر خصلت پر ڈھل سکتا ہے سوائے خیانت اور جھوٹ کے۔"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101176

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں