بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عمرہ کی اجازت نہ ہو نے کی صورت میں مکہ مکرمہ کے رہائشی کے لیے میقات کے باہر جانے اور وہاں سے واپس آنے کا حکم


سوال

اگر کوئی شخص مکہ مکرمہ کا رہائشی ہے اور موجودہ کورونا جیسی صورتِ حال میں جس میں عمرہ کرنے کی اجازت نہیں ہے، میقات سے باہر چلا جائے،  مکہ مکرمہ میں واپسی پر اس شخص کو کیا کرنا چاہیے؟

جواب

واضح رہے کہ جو لوگ میقات کے اندر رہتے ہیں، چاہے وہ میقات کے اندر حل میں رہتے ہوں یا حدودِ حرم میں، اگر وہ میقات سے باہر چلے جائیں تو ان پر  مکہ مکرمہ واپسی پر حج یا عمرہ کا احرام باندھنا  شرعًا لازم ہے، لہذا  موجودہ صورتِ حال میں بھی  اگر مکہ میں رہنے والا کوئی شخص میقات سے باہر چلا گیا تو  مکہ مکرمہ واپسی کے وقت عمرہ کا احرام باندھنا ضروری ہوگا، پھر اگر حکومت  کی طرف سے اس شخص کو عمرہ کرنے سے روک دیا جائے  تو یہ شخص  محصر (جس شخص کو حج یا عمرہ سےروک دیا گیا ہو)  شمار  ہو گا، چنانچہ اس شخص پر  حدودِ حرم میں ایک دم (قربانی) دینا لازم ہوگا اور جب اس کی طرف سے حدودِ حرم میں دم اداکردیا جائے گا اس کے بعد یہ شخص احرام سے حلال ہوجائے گا، اگر اس دوران (حدودِ حرم میں قربانی کرنے سے پہلے)  ممنوعاتِ احرام میں سے  کوئی کام کیا تو اس پر وہی دم یا صدقہ وغیرہ واجب ہوگا جو ایک عمرہ کرنے والے شخص پر  ہوتا ہے  اور اِحصار ختم ہونے کے بعد اس شخص پر ایک عمرہ کی قضا لازم ہوگی۔

وفي البحر الرائق:

"كالمكي إذا خرج من الحرم لحاجة له أن يدخل مكة بغير إحرام بشرط أن لا يكون جاوز الميقات كالآفاقي فإن جاوزه فليس له أن يدخل مكة من غير إحرام؛ لأنه صار آفاقيًا."

(5/ 429ط:دار احياء التراث العربي)

وفي الفتاوى الهندية: 

"المحصر من أحرم ثم منع عن مضي في موجب الإحرام سواء كان المنع من العدو أو المرض أو الحبس أو الكسر أو القرح أو غيرها من الموانع من إتمام ما أحرم به حقيقة أو شرعا وهذا قول أصحابنا رحمهم الله تعالى ... (وأما حكم الإحصار) فهو أن يبعث بالهدي أو بثمنه ليشتري به هديا ويذبح عنه وما لم يذبح؛ لايحل وهو قول عامة العلماء سواء شرط عند الإحرام الإهلال بغير ذبح عند الإحصار أو لم يشترط، ويجب أن يواعد يومًا معلومًا يذبح عنه فيحل بعد الذبح ولايحل قبله حتى لو فعل شيئًا من محظورات الإحرام قبل ذبح الهدي يجب عليه ما يجب على المحرم إذا لم يكن محصرًا، وأما الحلق فليس بشرط للتحلل في قول أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى - وإن حلق فحسن، كذا في البدائع ...ثم إذا تحلل المحصر بالهدي وكان مفردا بالحج؛ فعليه حجة وعمرة من قابل، وإن كان مفردًا بالعمرة؛ فعليه عمرة مكانها وإن كان قارنا فإنما يتحلل بذبح هديين وعليه عمرتان وحجة، كذا في المحيط."

(1/ 255ط:دار الفكر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144202200729

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں