بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عمرہ کے بعد بال نہ کاٹنے کی صورت میں دم دینے کا حکم


سوال

اگرعمرہ میں  عورت نے بال نہیں کاٹے تو کب کاٹے ؟ اور کیا عمرہ ہو گیا یا دوبار ہ کرنا پڑے گا؟

جواب

عمرہ کے ارکان ادا  کرنے کے بعدمرد  کے لیے  حلق (سرمنڈوانا) یا قصر (کم از کم ایک چوتھائی سر کے بال کم از کم ایک پورے کے برابر کاٹنا)  ضروری ہے اور عورت کے لیے   سر کے کم از کم چوتھائی بالوں سے ایک پورے (انگلی کے تہائی حصہ) کے بقدر قصر کرنا ضروری ہے، ورنہ دم لازم آئے گا، جو حدودِ حرم میں دینا لازم ہوگا . سر کے بال کٹوائے بغیر مرد اور عورت احرام کی پابندیوں سے نہیں نکلیں گے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  اگر عورت نےحدودِ حرم میں بال نہیں کاٹے تو عمرہ تو ہوجاۓ گا لیکن دم دینا لازم ہوگا اور اگر عورت حرم ہی میں رہے، تو اب بال کاٹ لے  تو دم ساقط ہوجائے گا، اس دوران اگر کسی ممنوع چیز کا ارتکاب کیا ہو تو اس کی وضاحت کر کے دوبارہ معلوم کر لیا جائے۔

 فتاوی شامی میں ہے:

"(أو حلق في حل بحج) في أيام النحر، فلو بعدها فدمان (أو عمرة) لاختصاص الحلق بالحرم.

(قوله: أو حلق في حل بحج أو عمرة) أي يجب دم لو حلق للحج أو العمرة في الحل؛ لتوقته بالمكان، وهذا عندهما، خلافاً للثاني، (قوله: في أيام النحر) متعلق بحلق بقيد كونه للحج، ولذا قدمه على قوله أو عمرة، فيتقيد حلق الحاج بالزمان أيضاً، وخالف فيه محمد، وخالف أبو يوسف فيهما، وهذا الخلاف في التضمين بالدم لا في التحلل؛ فإنه يحصل بالحلق في أي زمان أو مكان، فتح. وأما حلق العمرة فلا يتوقت بالزمان إجماعاً، هداية. وكلام الدرر يوهم أن قوله: في أيام النحر قيد للحج والعمرة، وعزاه إلى الزيلعي، مع أنه لا إيهام في كلام الزيلعي كما يعلم بمراجعته، (قوله: فدمان) دم للمكان ودم للزمان، ط، (قوله: لاختصاص الحلق) أي لهما بالحرم وللحج في أيام النحر، ط".  

(کتاب الحج، باب الجنایات، ج: 2، ص: 554، ط: سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144412100033

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں