بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عمرے میں جاتے وقت ائیرپورٹ پر رشوت دے کرسگریٹ لے جانے کا حکم


سوال

میرا سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص عمرہ پر جائے، اور اپنے ساتھ  کاروبار کی نیت سے  30یا 40ڈنڈےسگریٹ    ساتھ لے جائے، اور اس کے لیے ائیرپورٹ پر رشوت بھی دینی پڑے، توکیا یہ کاروبار جائز ہے یا حرام ہے؟اور یہ کام اسمگلنگ کے ضمن میں آۓگا یا نہیں؟ اور اس کام کی کمائی حلال ہے یا حرام ہے؟سگریٹ کے علاوہ اور بھی بہت سی اشیاء ہیں ،جیسے کپڑا ،بیوٹی کریم اور بھی اس طرح کی بہت سی اشیاء جو کہ ضرورت سے زیادہ لےکر جانا قانوناً جرم ہے، دونوں ممالک کی ڈیوٹی کی چوری لازم آتی ہے، تو ان اشیاء کا بھی حکم بتادیں ان کی کمائی کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے حج وعمرہ کے سفر پر جاتے ہوئے تجارت کی غرض سے سامان ساتھ لے جانا جائز ہے، البتہ دونوں ممالک کے قوانین کی رعایت ضروری ہے، غیرقانونی اشیاء لے جانا جائز نہیں،کیوں کہ  اس عمل میں   قوانین کی خلاف ورزی کرنی پڑتی ہے،جب کہ  کسی بھی جائز معاہدے کی خلاف ورزی شریعت  میں ممنوع  ہے،پھر مزید یہ کہ ان ریاستی قوانین  کی خلاف ورزی  کی وجہ سے مزید بہت سے منکرات بھی لازم آتے ہیں،مثلاً اکثر اوقات ان معاملات میں جھوٹ  رشوت،اور دیگر برے کاموں کا سہارا  لیا جاتا ہے اور پکڑے جانے والےمال کو کلئیر کروانے کے لیے رشوت بھی دینی پڑتی ہے جو  کہ ناجائز اور حرام ہے،نیز مال  کے علاوہ اپنی عزت اور جان کو بھی خطرے میں ڈالنا پڑتا ہے،   اور شریعت نے اپنے آپ کو ذلت و رسوائی میں ڈالنے سے منع کیا ہے،اس لیے مذکورہ مفاسد کے پیشِ نظر   ایسے کاموں  سےبہر صورت اجتناب  ضروری ہے،تاہم  سگریٹ  وغیرہ کی تجارت سے حاصل شدہ نفع حرام نہیں بلکہ حلال ہوگا۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن عبد الله بن عمرو قال : لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي . رواه أبو داود وابن ماجه."

(کتاب القضاء والامارۃ، باب رزق الولاة وهداياهم، الفصل الأول، ج:2، ص:354، ط: المکتب الاسلامی)

    مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعن حذيفة رضي الله عنه قال: قال رسول الله: صلى الله عليه وسلم ( «لا ينبغي للمؤمن أن يذل نفسه) . قالوا: وكيف يذل نفسه؟ قال (يتعرض من البلاء لما لا يطيق» ) . رواه الترمذي، وابن ماجه..... (‌لا ‌ينبغي) : ‌أي: ‌لا ‌يجوز للمؤمن أن يذل نفسه) : أي: باختياره."

( كتاب أسماء الله تعالى، باب جامع الدعاء، ج:5،ص:739،ط:دار الفكر)

 مبسو ط سرخسی میں ہے:

"وإذلال النفس حرام، قال: - صلى الله عليه وسلم - «ليس للمؤمن أن يذل نفسه."

(كتاب النكاح ،باب الاكفاء، ج:5، ص:23، ط: دارالمعرفة بيروت)

فتح القدير ميں هے:

"قال (ولا ينبغي للسلطان أن يسعر على الناس) لقوله عليه الصلاة والسلام «لا تسعروا فإن الله هو المسعر القابض الباسط الرازق» ولأن الثمن حق العاقد فإليه تقديره، فلا ينبغي للإمام أن يتعرض لحقه ‌إلا ‌إذا ‌تعلق ‌به ‌دفع ضرر العامة على ما نبين."

(كتاب الكراهية، فصل في البيع، ج:10، ص:59، ط: دارالفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"‌وفي ‌شرح ‌الجواهر: ‌تجب إطاعته فيما أباحه الشرع، وهو ما يعود نفعه على العامة، وقد نصوا في الجهاد على امتثال أمره في غير معصية."

(كتاب الأشربة، ج:6، ص:460، ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"وأفاد في البزازية: أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي ... وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ."

 

( کتاب الحدود، باب التعزیر، ج:4، ص:61، ط: سعید)

فقط واللہ أعلم 


فتوی نمبر : 144507101604

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں