1۔عمرے کے لیے جاتے وقت اگر ہم اپنے ساتھ ممنوعہ سامان(سگریٹ)اس نیت سے لے جائیں کہ کچھ رقم اچھی مل جائے گی،تو یہ کام جائز ہے؟
2۔نیز اس سامان کو ائیر پورٹ پر چھڑانے کے لیےرشوت بھی دینا کیا ایک عالم کے لیے جائز ہوگا؟
1۔حج وعمرہ کے سفر پر جاتے ہوئے تجارت کی غرض سے سامان لے جانا جائز ہے، البتہ دونوں ممالک کے قوانین کی رعایت ضرورت ہے، غیرقانونی اشیاء لے جانا جائز نہیں۔ نیز نیت خالص عبادت (حج یا عمرے) کی ہو، تجارت کو ثانوی حیثیت دے۔ سگریٹ کی تجارت فی نفسہ جائز ہے، تاہم اگر سعودی قوانین میں اس کے لے جانے پر پابندی ہو ،تو ایسا کام نہ کرے جس سے عزت اور جان خطرے میں پڑجائے۔
تفسیر مظہری میں ہے:
"(لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَبْتَغُوا) تطلبوا (فَضْلًا) عطاء ورزقا(مِنْ رَبِّكُمْ)بالتجارة ونحو ذلك في سفر الحج روى البخاري عن ابن عباس قال ثلاث كانت اسواقا في الجاهلية عكّاظ- ومجنة- وذو المجاذ فلما كان الإسلام تأثموا من التجارة فيها فانزل الله تعالى(لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ) فى مواسم الحج".
(سورة البقرة ،الآية:198،ج:1،ص:235،ط: رشيدية)
کفایت المفتی میں ہے:
"(سوال ) میں نے ایک دکان فی الحال کھولی ہے جس میں متفرق اشیاء ہیں، ارادہ ہے کہ سگریٹ اور پینے کا تمباکو بھی رکھ لوں، یہ ناجائز تو نہیں ہوگا ؟
( جواب ۱۶۳) سگریٹ اور تمباکو کی تجارت جائز ہے او ر اس کا نفع استعمال میں لانا حلال ہے۔ (9/148)
محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ‘ ۔ "
فتاوی شامی میں ہے:
"قال في المعراج لأن طاعة الإمام فيما ليس بمعصية واجبة".
(كتاب الصلاة،باب العيدين،مطلب تجب طاعة الإمام فيما ليس بمعصية،ج:2،ص:172،ط: سعيد)
2۔رشوت لینے اور دینے والے پر حضورِ اکرم ﷺ نے لعنت فرمائی ہے، چناں چہ رشوت لینا اور دینا عالم اور غیر عالم سب کے لیے ناجائز ہے، اس لیے حتی الامکان رشوت دینے سے بچنا بھی واجب ہے، البتہ اگر کوئی جائز کام تمام قانونی تقاضوں کو پورا کرنے اور حق ثابت ہونےکے باوجود صرف رشوت نہ دینے کی وجہ سے نہ ہورہا ہو تو ایسی صورت میں حق دار شخص کو چاہیے اولاً وہ اپنی پوری کوشش کرے کہ رشوت دیے بغیر کسی طرح اس کا کام ہوجائے، لیکن اگر اپنے جائز ثابت شدہ حق کے حصول کے لیے مجبوراً رشوت دینے کی نوبت آجائے تو ایسی صورت میں رشوت دینے والا گناہ گار نہ ہوگا، البتہ رشوت لینے والے شخص کے حق میں رشوت کی وہ رقم ناجائز ہی رہے گی اور اسے اس رشوت لینے کا سخت گناہ ملے گا۔لہذا صورت مسئولہ میں غیر قانونی طریقے سے سگریٹ لے جانے اور پھر اس کو چھڑانے کے لیے رشوت دینا شرعاًناجائز ہے۔
سنن أبی داود میں ہے:
’’عن أبي سلمة، عن عبد الله بن عمرو، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي»‘‘.
(كتاب القضاء،باب في كراهية الرشوة،ج:3،ص:326،رقم:3580،ط: المطبعة الأنصارية بدهلي)
فتاوی شامی میں ہے:
’’دفع المال للسلطان الجائر لدفع الظلم عن نفسه وماله ولاستخراج حق له ليس برشوة يعني في حق الدافع اهـ ‘‘.
(كتاب الحظر والإباحة،فصل في البيع،ج:6،ص:423/424،ط: سعيد)
مرقاة المفاتیح میں ہے:
"(وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما) : بالواو (قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي» ) : أي: معطي الرشوة وآخذها، وهي الوصلة إلى الحاجة بالمصانعة، وأصله من الرشاء الذي يتوصل به إلى الماء، قيل: الرشوة ما يعطى لإبطال حق، أو لإحقاق باطل، أما إذا أعطى ليتوصل به إلى حق، أو ليدفع به عن نفسه ظلماً فلا بأس به، وكذا الآخذ إذا أخذ ليسعى في إصابة صاحب الحق فلا بأس به، لكن هذا ينبغي أن يكون في غير القضاة والولاة؛ لأن السعي في إصابة الحق إلى مستحقه، ودفع الظالم عن المظلوم واجب عليهم، فلايجوز لهم الأخذ عليه".
(کتاب الأمارة والقضاء، باب رزق الولاة وهدایاهم، الفصل الثاني،ج:7 ص:295،ط:دارالکتب العلمیة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144410100468
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن