بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عمرہ کے طواف میں خانہ کعبہ اور حجر اسود کو ہاتھ لگانے کا حکم


سوال

میری والدہ نے ۹ عمرہ کیے ہیں اور ہر عمرہ کے طواف میں لا علمی میں خانہ کعبہ کو ہاتھ لگایا تھا ۔ اب ہم ۲۲ جنوری کو دوبارہ عمرہ پر جارہے ہیں۔ اب ہمیں پتا چلا ہے کہ  طواف کے دوران خانہ کعبہ کو ہاتھ لگانا اور بوسہ دینا  منع ہے۔کیا دم واجب ہے علم میں آنے کے بعد  اور اگر حیثیت نہ ہو دم دینے کی تو کیا کریں؟  

جواب

 صورتِ  مسئولہ میں سائل کی والدہ نے پچھلے ۹ عمروں کے دوران جو خانہ کعبہ کو ہاتھ لگایا   تو جس مربتہ  ہاتھ لگانے کی صورت میں مکمل ہاتھ پر خوشبو لگ گئی تھی تو والدہ پر دم واجب ہوگا اور اگر ہاتھ  کے بعض حصہ پر  خوشبو لگی اور خوشبو کی مقدار زیادہ تھی  تب بھی دم واجب ہوگا۔ اگر  پورے ہاتھ پر نہیں لگی اور خوشبو بھی کم تھی تو صدقہ واجب ہوگا۔ خوشبو کے کم اور زیادہ ہونے اور مکمل عضو پر لگنے یا نہ لگنے کا فیصلہ سائل کی والدہ ہی کرسکتی ہیں۔ اگر ان کو کچھ بھی یاد نہیں ہے تو پھر احتیاطا دم ادا کردینا ہی بہتر ہوگا۔

نیز یہ بھی ذہن نشین رہے کہ مذکورہ صورت میں اگر سائل کی والدہ پر دم واجب ہے تو دم ہی ادا کرنا ہوگا اور اگر صدقہ واجب ہے تو صدقہ ہی ادا کرنا ہوگا،دم یا صدقہ کا کوئی متبادل نہیں ہے۔سائل کو چاہیے کہ اب جو ایک اور مرتبہ عمرہ کاارادہ رکھتا ہے تو اس عمرہ کے لیے جمع شدہ رقم سے دم یا صدقہ جو واجب ہو ہے وہ ادا کردے۔

غنیۃ الناسک میں ہے:

"اذا تعدد الجنايات تعدد الجزاء الا اذا اتحد المجلس في التطيب و الحلق و القص و الجماع او المحل في الحلق و القص او السبب في لبس المخيط  الخ."

(باب الجنایات، ص نمبر ۳۷۸، مصباح)

غنیۃ الناسک میں ہے:

"و لا فرق بين ان يقصده او لا و لذا قال في المبسوط و ان استلم الركن فاصاب فمه او بدنه خلوق كثير فعليه دم و ان كان قليلا فصدقة."

(باب الجنایات، ص نمبر ۳۸۱،مصباح)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو ارتكب المحظور بغير عذر فواجبه الدم عينا، أو الصدقة فلا يجوز عن الدم طعام ولا صيام، ولا عن الصدقة صيام؛ فإن تعذر عليه ذلك بقي في ذمته. اهـ.وما في الظهيرية من أنه إن عجز عن الدم صام ثلاثة أيام ضعيف كما في البحر."

(کتاب الحج، باب الجنایات ج نمبر ۲ ص نمبر ۵۵۷، ایچ ایم سعید)

غنیۃ الناسک میں ہے:

"فان طيب عضوا كاملا من اعضائه فما زاد كالرأس و الوجه و اللحية و الفم و الساق والفخذ والعضد و اليد و الكف و نحو ذلك و ان غسله من ساعته و في اقله و لو اكثره صدقة  كذا في المتون وحكم اقله العضو الصغير كالانف  والعين و الشارب ثم هذا اذا كان الطيب قليلا لان العبرة حينئذ بالعضو لا الطيب فان كان كثيرا ففي اقله و لو اقل من ربعه كذا في عضو صغير دم لان العبرة حينئذ بالطيب لا بالعضو و هذا هو الصحيح."

(باب الکفارات ص نمبر ۳۸۲،المصباح)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100053

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں