بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عمرہ کے سفر میں روزہ کا حکم


سوال

1)اللہ تعالی کے فضل و کرم سے میں 15 رمضان سے 30 رمضان تک  میرا  عمرہ کاسفر ہے۔ کیا مجھے ان پندرہ دنوں میں روزہ رکھنا ہوگا؟

2)کیا کوئی دعا بتا سکتے ہیں کہ جب میں کعبہ کو پہلی مرتبہ دیکھوں تو کیا پڑھوں؟

جواب

1)واضح رہے کہ جب کوئی شخص اپنے گھر سے ۴۸ میل دور کسی مقام کی طرف سفر کرے اور اس مقام پر مکمل پندرہ دن (360 گھنٹہ) سے کم قیام کا ارادہ ہو تو شرعًا یہ شخص اس مقام پرقیام کے دوران مسافر ہے اور    روزہ کے معاملہ میں با اختیار ہے، چاہے تو روزہ رکھ لے اور چاہے تو روزہ چھوڑ دے اور سفر ختم ہونے کے بعد قضا  کرلے۔اگر مکمل پندرہ دن (360 گھنٹہ)  یا اس سے زائد قیام کا ارادہ ہو تو شرعا یہ شخص اس مقام پر قیام کے دوران  مقیم ہے اور اس پر روزہ رکھنا ضروری اور فرض ہے؛ لہذا صورتِ  مسئولہ میں  ان 16 دنوں (15 رمضان سے 30 رمضان) میں سے اگر مکمل پندرہ دن  (360 گھنٹہ) مکہ  میں ہی قیام ہے تو پھر شرعًا سائل مکہ میں مقیم بن جائے گا اور روزے رکھنا ضروری ہوگا ،اور اگر ان 16 دن میں مدینہ اور مکہ دونوں جگہ قیام ہے اور کسی ایک جگہ بھی مکمل پندرہ دن نہیں ہورہے تو پھر سائل شرعا مسافر ہوگا اور روزہ رکھنے یا نہ رکھنے میں اختیار ہوگا اور روزہ نہ رکھنے کی صورت میں سفر سے واپسی پر قضا  ضروری ہے، البتہ  اگر کسی شدید مشقت کا اندیشہ نہ ہو تو عمرہ کے مبارک سفر ، مکہ اور مدینہ کے مبارک مقامات پر مسافر ہونے کے باوجود روزے رکھ لینے  چاہییں؛ تاکہ مکمل فضیلت حاصل ہوسکے۔  

2) علامہ سرخسی رحمہ اللہ نے   حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت  نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مسجد حرام میں داخل ہوئے تو یہ دعا پڑھی:

"اَللّٰهُمَّ زِدْ بَيْتَكَ تَشْرِيْفًا وَ تَعْظِيْمًا وَتَكْرِيْماً وَ بِرًّا وَ مَهَابَةً."

نیز  حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب کعبہ کی طرف دیکھتے تو  "بِسمِ اللّٰه اللّٰه أكبَرُ"  کہتے۔

بعض روایات میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کعبہ کی طرف دیکھتے تو یہ دعا پڑھتے: 

"أعُوْذُ بِرَبِّ البَيْتِ مِنَ الدَّيْنِ وَالْفَقْرِ وَ مِنْ ضِيْقِ الصَّدْرِ وَ عَذَابِ الْقَبْرِ."

خلاصہ یہ کہ کعبہ کی طرف پہلی نظر پڑنے کے وقت کی کوئی متعین و مخصوص دعا نہیں ہے، اُس وقت دل میں جو  دعائیں یاد آئیں وہ مانگ لی جائیں، مخصوص دعاؤں کی تعیین کی وجہ سے رقتِ قلب جاتی رہتی ہے، لہذا ا س موقع پر جو  اخروی اور دنیاوی حاجات سامنے ہوں وہ مانگ لینا چاہیے، اگر اس طرح کی دعائیں مانگ  لی جائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے مستجاب الدعات بنا دے، یا اس سفر میں میری ساری دعاؤں کو قبول فرما لے تو زیادہ جامع دعا ہو گی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(فيقصر إن نوى) الإقامة (في أقل منه) أي في نصف شهر (قوله في أقل منه) ظاهره ولو بساعة واحدة وهذا شروع في محترز ما تقدم ط."

(کتاب الصلاۃ باب صلاۃ المسافر ج نمبر ۲ ص نمبر ۱۲۵،ایچ ایم سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أقل مسافة تتغير فيها الأحكام مسيرة ثلاثة أيام، كذا في التبيين، هو الصحيح، كذا في جواهر الأخلاطي الأحكام التي تتغير بالسفر هي قصر الصلاة واباحة الفطر وامتداده مدة المسح إلى ثلاثة أيام وسقوط وجوب الجمعة والعيدين والأضحية وحرمة الخروج على الحرة بغير محرم، كذا في العتابية."

(کتاب الصلاۃ باب صلاۃ المسافر ج نمبر ۱ ص نمبر ۱۳۸،دار الفکر)

وفيه ايضاّ:

"(الباب الخامس في الأعذار التي تبيح الإفطار) . (منها السفر) الذي يبيح الفطر وهو ليس بعذر في اليوم الذي أنشأ السفر فيه كذا في الغياثية."

(کتاب الصوم، باب خامس ج نمبر ۱ ص نمبر ۲۰۶،دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"قال في البحر: و لم يذكر في المتون الدعاء عند مشاهدة البيت، وهي غفلة عما لايغفل عنه فإنه عندها مستجاب ومحمد -رحمه الله تعالى - لم يعين في الأصل لمشاهد الحج شيئا من الدعوات لأن التوقيت يذهب بالرقة وإن تبرك بالمنقول منها فحسن كذا في الهداية. وفي فتح: ومن أهم الأدعية طلب الجنة بلا حساب والصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم هنا من أهم الأذكار كما ذكره الحلبي في مناسكه. اهـ."

(کتاب الحج ج  نمبر ۲ ص نمبر ۴۹۲،ایچ ایم سعید)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"وروى جابر - رضي الله عنه - «أن النبي صلى الله عليه وسلم لما دخل مكة دخل المسجد فلما وقع بصره على البيت قال: اللهم زد بيتك تشريفا وتعظيما وتكريما وبرا ومهابة». ولم يذكر في الكتاب تعيين شيء من الأدعية في مشاهد الحج لما قال محمد - رحمه الله تعالى - التوقيت في الدعاء يذهب رقة القلب فاستحبوا أن يدعو كل واحد بما يحضره ليكون أقرب إلى الخشوع، وإن تبرك بما نقل عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فهو حسن، وكان ابن عمر - رضي الله عنه - يقول إذا لقي البيت بسم الله والله أكبر.

وعن عطاء - رضي الله عنه - أن النبي صلى الله عليه وسلم «كان إذا لقي البيت يقول أعوذ برب البيت من الدين و الفقر و من ضيق الصدر و عذاب القبر»."

(کتاب المناسک ج نمبر ۴ ص نمبر ۹،دار المعرفہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101688

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں