بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عمرہ کے سفر میں مدینہ منورہ سے ہوکر عمرے کا ارادہ تھا، لیکن جدہ پر ہی روک دیا گیا تو کیا حکم ہوگا؟


سوال

ایک صاحب نے پاکستان سے سعودی ائیر لائن کے ذریعہ یورپ جانا تھا، پاکستان سے سعودیہ  کا ٹرانزٹ ویزہ لیا؛ تاکہ عمرہ کرسکے۔اس کا ارادہ تھا پہلے مدینہ منورہ جاؤں گا،  وہاں سے مکہ مکرمہ، اس لیے  اس نے احرام نہیں باندھا۔ جدہ ائیرپورٹ پر امیگریشن والے نے اسے مدینہ منورہ نہیں جانے دیا، بلکہ یورپ والے جہاز پر بٹھادیا۔مسئلہ یہ پوچھنا ہے کہ اس شخص کی عمرہ کی نیت تو تھی لیکن احرام نہیں باندھا تھا تو اس کے  لیے کیا حکم ہے؟ اس نے اپنی مرضی سے عمرہ کا ارادہ ترک نہیں کیا، بلکہ اسے جدہ ائیرپورٹ سے باہر ہی نہیں نکلنے دیا گیا۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں  مذکورہ شخص کی نیت اگرچہ  عمرے کی تھی، لیکن اس کا ارادہ ابتداءًا مدینہ منورہ جانے کا تھا جو میقات سے باہر ہے، اور اسے جدہ ائیرپورٹ پر ہی روک دیا گیا اور یورپ کی فلائیٹ میں روانہ کردیا گیا تو چوں کہ میقات  کی فضائی حدود سے گزرتے وقت اس کا ارادہ حدودِ حرم میں داخل ہونے کا نہیں تھا؛ اس لیے میقات کی فضائی حدود سے احرام کے بغیر گزرنے کی وجہ سے اس پر دم لازم نہیں ہوگا۔ 

باقی  عمرہ کا ارادہ کرنے کے بعد عذر کی وجہ سے وہ عمرہ نہیں کرسکا؛ اس لیے  وہ عند اللہ معذور سمجھا جائے گا، اسے پریشان نہیں ہونا چاہیے، بلکہ انتظار کرے اور آئندہ جب موقع ملے اس وقت عمرہ کرلے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 579):

’’ (آفاقي) مسلم بالغ (يريد الحج) ولو نفلا (أو العمرة) فلو لم يرد واحدا منهما لا يجب عليه دم بمجاوزة الميقات، وإن وجب حج أو عمرة إن أراد دخول مكة أو الحرم على ما سيأتي في المتن قريبا (وجاوز وقته) ظاهر ما في النهر عن البدائع اعتبار الإرادة عند المجاوزة (ثم أحرم لزمه دم؛ كما إذا لم يحرم.

(قوله: يريد الحج أو العمرة) كذا قاله صدر الشريعة، وتبعه صاحب الدرر وابن كمال باشا، وليس بصحيح لما نذكر. ومنشأ ذلك قول الهداية: وهذا الذي ذكرنا أي من لزوم الدم بالمجاوزة إن كان يريد الحج أو العمرة، فإن كان دخل البستان لحاجة فله أن يدخل مكة بغير إحرام. اهـ. قال في الفتح: يوهم ظاهره أن ما ذكرنا من أنه إذا جاوز غير محرم وجب الدم إلا أن يتلافاه، محله ما إذا قصد النسك، فإن قصد التجارة أو السياحة لا شيء عليه بعد الإحرام وليس كذلك لأن جميع الكتب ناطقة بلزوم الإحرام على من قصد مكة سواء قصد النسك أم لا. وقد صرح به المصنف أي صاحب الهداية في فعل المواقيت، فيجب أن يحمل على أن الغالب فيمن قصد مكة من الآفاقيين قصد النسك، فالمراد بقوله إذا أراد الحج أو العمرة إذا أراد مكة. اهـ. ملخصًا من ح عن الشرنبلالية، وليس المراد بمكة خصوصها، بل قصد الحرم مطلقا موجب للإحرام كما مر قبيل فصل الإحرام، وصرح به في الفتح وغيره (قوله فلو لم يرد إلخ) قد علمت ما فيه ح (قوله: على ما مر) أي أول الكتاب في بحث المواقيت في قوله وحرم تأخير الإحرام عنها لمن قصد دخول مكة ولو لحاجة. وفي بعض النسخ على ما سيأتي في المتن قريبا: أي في قوله: وعلى من دخل مكة بلا إحرام حجة أو عمرة (قوله: وجاوز وقته) أي ميقاته، والمراد آخر المواقيت التي يمر.‘‘

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207201353

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں