بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عمرہ یا طواف کسی زندہ کو بخشنا


سوال

کیا زندہ انسان کو عمرہ کرکے ہدیہ کیا جاسکتا ہے؟ نفلی طواف کسی کے نام  کیا جاسکتاہے؟

جواب

نفلی اعمال کا ثواب جس طرح مردوں کو بخشا جا سکتا ہے، اسی طرح زندوں کو بھی نفلی اعمال کا ثواب بخشا جا سکتا ہے۔ ثواب پہنچانے کے لیے مُردوں کی تخصیص نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کی طرف سے قربانی فرمایا کرتے تھے اور امت میں زندہ مردے سب شامل ہیں، چناں چہ حدیث شریف میں ہے:

سنن ابن ماجه ت الأرنؤوط (4/ 301):

"عن عائشة أو عن أبي هريرة: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا أراد أن يضحي اشترى كبشين عظيمين سمينين أقرنين أملحين موجوءين، فذبح أحدهما عن أمته، لمن شهد لله بالتوحيد، وشهد له بالبلاغ، وذبح الآخر عن محمد وعن آل محمد  صلى الله عليه وسلم."

اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی فرمایا کرتے تھے:

مشكاة المصابيح (1/ 459):

"وعن حنش قال: رأيت عليًّا رضي الله عنه يضحي بكبشين فقلت له: ما هذا؟ فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم أوصاني أن أضحي عنه فأنا أضحي عنه. رواه أبو داود وروى الترمذي نحوه."

اس سے بھی معلوم ہوا کہ اعمال کا ثواب ہدیہ کرنا جائز اور درست ہے۔

عمرہ اور نفلی طواف کرکے اس کا ثواب زندوں کو بھی بخشا جاسکتاہے، نیز زندہ اور مردہ کی طرف سے حجِ بدل بھی کیا جاسکتاہے، جیسا کہ بخاری شریف کی روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے:

"بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ ایک عورت حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے پاس مسئلہ پوچھنے کے لیے آئیں، اس نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول! میرے والد اتنے ضعیف اور کمزور ہو چکے ہیں کہ سواری پر بیٹھے کی بھی ہمت و طاقت نہیں رکھتے، جب کہ حج اُن پر فرض ہے، کیا میں اپنے والد کی طرف سے حج کر سکتی ہوں؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جی ہاں! آپ کر سکتی ہیں۔"

صحيح البخاري (3/ 18):

'' عن عبد الله بن عباس رضي الله عنهما، قال: كان الفضل رديف النبي صلى الله عليه وسلم، فجاءت امرأة من خثعم، فجعل الفضل ينظر إليها وتنظر إليه، فجعل النبي صلى الله عليه وسلم يصرف وجه الفضل إلى الشق الآخر، فقالت: إن فريضة الله أدركت أبي شيخًا كبيرًا لايثبت على الراحلة، أفأحج عنه؟ قال: «نعم» وذلك في حجة الوداع."

ان تمام دلائل سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اعمال کا ثواب زندہ و مردوں سب کے لیے  درست ہے اور یہ حکم احادیث سے ثابت شدہ ہے۔

"فإن من صام أو صلى أو تصدق وجعل ثوابه لغيره من الأموات والأحياء جاز، ويصل ثوابها إليهم عند أهل السنة والجماعة، كذا في البدائع۔ وبهذا علم أنه لا فرق بين أن يكون المجعول له ميتا أو حيًّا." (البحر الرائق، 3/63)

(کفایت المفتی 4/140-آپ کے مسائل اور ان کا حل4/425)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204200308

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں