میں نے آٹھ ماہ پہلے عمرہ کیا،اس سفر میں نے چار عمرے کیے،پہلے عمرہ میں بالوں کا قصر کروایا،پھر اس کے بعد جو عمرے کیے،ان میں بار بار زیرو کی مشین پھیرواتا رہا،کچھ دن پہلے مجھے معلوم ہوا کہ آپ کو اُسترا پھروانا چاہیے تھا،اب مجھے معلوم ہوا ہے ،مجھ سے غلطی ہو ئی ہے،اور میں شادی شدہ ہوں،ان کے کہنے پر میں نے فوراً اُسترا پھروا لیا ہے،اور دم بھی ادا کر دیا ہے،اب پوچھنا یہ تھا ،میں ایک شادی شدہ ہوں،مجھ سے بھول میں غلطی ہو ئی ہے،اب اور کچھ تو نہیں میرے پر لازم ؟میں بہت پریشان ہوں۔
واضح رہے کہ حج وعمرے میں حلق یعنی استرے سے سر مونڈنا افضل ہے اور قصریعنی ایک پورے کے برابر بال کٹوانے کی اجازت ہے۔ اگرکسی شخص کے بال انگلی کے پوروں سے بڑے ہیں اورانگلی کے پورے کے بقدر مشین سے کاٹ دیے جائیں تو ایسی صورت میں قصر درست ہے اور وہ شخص احرام سے نکل جائے گا۔ البتہ اگر کسی کے بال انگلی کے پورے سے چھوٹے ہیں تو ایسی صورت میں مشین سے قصر کرنا کافی نہیں ہوگا، بلکہ استرے سے حلق کرانا ضروری ہوگا؛ اس لیے کہ حلق کہتے ہیں جڑ سے بال مونڈنے کو،اور مشین کے ذریعہ اس پر عمل نہیں ہوسکتا؛ اس لیے دوسری صورت میں (یعنی بال انگلی کے پورے سے چھوٹے ہوں) اگر بال مشین سے بالکل چھوٹے کردیے جائیں تو بھی حلق نہیں ہوگا اور احرام سے نہیں نکل سکے گا۔الغرض بال پورے سے کم ہوں تو پھر استراپھروانا ہی ضروری ہے،زیرومشین استرے کے قائم مقام نہیں ہوگی۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں عمرہ کے طواف وسعی کے بعد اگر سائل کے بال انگلی کے پورے سے چھوٹے تھے تو ایسی صورت میں مشین سے قصر کرنا کافی نہیں تھا، بلکہ استرے سے حلق کرانا ضروری تھا، لہذاحرم کی حدود سے باہر حلق کرنے کی صورت میں سا ئل کے ذمہ ایک دم لازم ہے،باقی سائل نے سوال میں مذکور غلطی کی وضاحت نہیں کی ہے،اگر غلطی سے مراد ممنوعاتِ احرام (مثلاً جماع وغیرہ) کا ارتکاب کرلیا اور یہ غلطی طواف یا طواف اور سعی کے بعد حلق یا قصر سے پہلے کی تو اس پر ایک دم لازم ہوگا،، اور یہ دونوں دم حدودِ حرم میں ذبح کرنا لازم ہوں گے، خواہ خود کرے یا کسی کو اس کا وکیل بنادے، اور اس کا عمرہ ادا ہوجائے گا،لیکن اگر طواف سے پہلے کیا تو پھر دم لازم ہونے کے ساتھ ساتھ عمرہ کا اعادہ بھی لازم ہو گا۔
ملحوظ: حج اور عمرہ کے سلسلے میں جو دم واجب ہوتا ہے، اس کا حرم کی حدود میں ذبح کرنا ضروری ہے، حدودِ حرم سے باہر کسی اور جگہ ذبح کرنے سے دم ادا نہیں ہوگا،لہذا اگر سائل نے اپنے وطن میں دم ادا کیا ہے تو وہ ادا نہیں ہوا،بلکہ حرم کی حدود میں ذبح کرنا ضروری ہے۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما التقصير فالتقدير فيه بالأنملة؛ لما روينا من حديث عمر - رضي الله عنه -، لكن أصحابنا قالوا: يجب أن يزيد في التقصير على قدر الأنملة؛ لأن الواجب هذا القدر من أطراف جميع الشعر، وأطراف جميع الشعر لايتساوى طولها عادةً بل تتفاوت فلو قصر قدر الأنملة لايصير مستوفياً قدر الأنملة من جميع الشعر بل من بعضه، فوجب أن يزيد عليه حتى يستيقن باستيفاء قدر الواجب فيخرج عن العهدة بيقين."
(كتاب الحج، فصل مقدار واجب الحلق والتقصير، 2 / 141، ط: سعید)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"واعلم أن المحرم إذا نوى رفض الإحرام فجعل يصنع ما يصنعه الحلال من لبس الثياب والتطيب والحلق والجماع وقتل الصيد فإنه لا يخرج بذلك من الإحرام، وعليه أن يعود كما كان محرما،ويجب دم واحد لجميع ما ارتكب ولو كل المحظورات، وإنما يتعدد الجزاء بتعدد الجنايات إذا لم ينو الرفض، ثم نية الرفض إنما تعتبر ممن زعم أنه خرج منه بهذا القصد لجهله مسألة عدم الخروج، وأما من علم أنه لا يخرج منه بهذا القصد فإنها لا تعتبر منه."
(کتاب الحج، باب الجنايات في الحج، ج:2، ص:553، ط:سعید)
فتح القدیر میں ہے:
"(قال:ولايجوز ذبح الهدايا إلا في الحرم)؛ لقوله تعالى في جزاء الصيد: «هدياً بٰلغ الكعبة»، (المائدة: 95) فصار أصلاً في كل دم هو كفارة؛ ولأن الهدي اسم لما يهدی إلى مكان، ومكانه الحرم. قال صلى الله عليه وسلم: «منى كلها منحر، وفجاج مكة كلها منحر»."
(كتاب الحج باب الهدي 3/163 ط: دارالفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604101881
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن