بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عمرہ کے ویزے پر حج کرنا


سوال

ایک آدمی عمرہ کا ویزا لگوا کر جائے، اور وہاں جاکر چھپ جائے ،حج کرنے کے لیے، کیا ایسا کرنا جائز ہے اس طرح حج ہو جائے گا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  عمرہ کے ویزے پر  چھپ کر   سعودی عرب جاکرحج کرنا سعودی حکومت کے قانون کے خلاف ہے   ،اس لیے اس سے اجتناب کرنا چاہیے ،البتہ اگر اس طرح حج کر لیا ،تو حج ادا ہو جائے گا ،  اور اگر اس  شخص پر حج فرض تھا،اور اس طرح حج کر لے ،تو  فریضۂ حج بھی اد ا ہو جائے گا  ۔

قرآنِ کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :

" یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ."(سورة النساء:59)

ترجمہ:"اے ایمان والو تم اللہ کا کہنا مانو اور رسول کا کہنا مانو اور تم میں سے جو حکومت والے ہیں ان کا بھی ۔"(بیان القرآن)

الجامع لأحکام القرآن للقرطبی میں ہے:

"(أولو الأمر) أهل القرآن والعلم، وهو اختيار مالك رحمه الله، ونحوه قول الضحاك قال: يعني الفقهاء والعلماء في الدين."

"وأما طاعة السلطان فتجب فيما كان لله فيه طاعة، ولا تجب فيما كان لله فيه معصية."

(تفسير سورة النساء :59 ،ج:5 ،ص :259 ،ط:دارالكتب المصرية)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من ‌غشنا فليس منا."

(كتاب البيوع والأقضية‌‌، ما ذكر في الغش: 4/ 563، ط: مكتبة العلوم والحكم، المدينة المنورة)

ارشاد الساری شرح صحیح بخاری میں ہے :

"واماالفقير اي الحقيقي وهو من ليس له مال ومن معناه ....إذا حج سقط عنه الفرض ان نواه اي الفرض في إحرام حجه أو اطلق النية ...حتي لو استغني ...بعد ذلك اي بعد اداء الحج بغير استطاعة لا يجب عليه ثانيا اي في المآل ."

(كتاب الحج ،النوع الرابع :شرائط وقوع الحج عن الفرض ،ج:1،ص:88 ،ط:امدادية ،مكة)

فتاوی رحیمیہ میں ہے :

"سوال :بعض لو گ عمرہ کے لیے جاتے ہیں ،اور پھر وہاں رک کر حج  کر کے واپس آتے ہیں ،وہاں رک جانا حکومت کے قانون کے خلاف ہے ،تو اس طرح حج کرنے سے حج کا فریضہ ساقط ہو گا کہ نہیں ؟

الجواب :یہ حکومت کے قانون کی خلاف ورزی ہے ،ایسا کرنا نامناسب ہے ،لیکن اگر کوئی شخص رک جائے اور حج کر لے تو فریضۂ حج ادا ہو جائے گا ،اگر حکومت خلافِ قانون کے مطابق کاروائی کرے ،تو اس کے لیے تیار رہنا چاہیے ۔"

(کتاب الحج ،ج:8 ،ص:49 ،ط:دارالاشاعت )

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144411101134

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں