بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نفلی عمرہ کرنے سے بہتر ہے سودی قرض اتارا جائے کہنے کا حکم


سوال

زید نے اپنی بیوی سے سات سال قبل جب وہ عمرہ کرنے کی ضد کررہی تھی ، کہا کہ :نفلی عمرہ کرنے سے بہتر ہے کہ سودی قرض جو شوہر پر ہے  ، اسے سب بہن بھائیوں کو اتارنا چاہیے، اس سے زیادہ ثواب کی امید ہے ، بیوی نے کہا کہ عمرہ کرنے سے رزق کشادہ ہوتا ہے ، اور حدیث کا حوالہ دیا، لیکن زید یہی کہتا رہا کہ پہلے قرض اترنا چاہیے ، لیکن اس کی بیوی نہیں مانی ، اور عمرہ کرنے بھائی کے ساتھ چلی گئی ، اب زید کی بیوی یہ الزام لگارہی ہے کہ شوہر نے حدیث کا مذاق اڑایا،اور اس کا ایمان باقی نہیں رہا،اور نکاح بھی ختم ہوگیا۔

کیا زید کی اس بات سے زید کا ایمان ختم ہوگیا اور نکاح ٹوٹ گیا ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں زید کے ان الفاظ کی ادائیگی کہ :نفلی عمرہ کرنے سے بہتر ہے کہ سودی قرض جو شوہر پر ہے  ، اسے سب بہن بھائیوں کو اتارنا چاہیے، اس سے زیادہ ثواب کی امید ہے ‘‘، کہنے سے کفر لازم نہیں آیا ، نہ ہی اس جملے سے نکاح ختم ہوا اور نفلی عمرہ کرنے کے بجائے سود کی لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنا ضروری ہے لہذا بیوی کا غلط پروپیگنڈا کرنا سراسر گاہ  ہے اس کو توبہ و استغفار کرنی چاہیے۔

نیز سودی قرض لینا شرعاً حرام ہے، رسول اللہ ﷺنے سود لینے اور دینے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے ۔ اس لیے سودی قرض کی لین دین جائز نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله قال في البحر إلخ) سبب ذلك ما ذكره قبله بقوله وفي جامع الفصولين، روى الطحاوي عن أصحابنا لا يخرج الرجل من الإيمان إلا جحود ما أدخله فيه ثم ما تيقن أنه ردة يحكم بها وما يشك أنه ردة لا يحكم بها إذ الإسلام الثابت لا يزول بالشك مع أن الإسلام يعلو وينبغي للعالم إذا رفع إليه هذا أن لا يبادر بتكفير أهل الإسلام مع أنه يقضي بصحة إسلام المكره. أقول: قدمت هذا ليصير ميزانا فيما نقلته في هذا الفصل من المسائل، فإنه قد ذكر في بعضها إنه كفر مع أنه لا يكفر على قياس هذه المقدمة فليتأمل اهـ ما في جامع الفصولين وفي الفتاوى الصغرى: الكفر شيء عظيم فلا أجعل المؤمن كافرا متى وجدت رواية أنه لا يكفر اهـ وفي الخلاصة وغيرها: إذا كان في المسألة وجوه توجب التكفير ووجه واحد يمنعه فعلى المفتي أن يميل إلى الوجه الذي يمنع التكفير تحسينا للظن بالمسلم زاد في البزازية إلا إذا صرح بإرادة موجب الكفر فلا ينفعه التأويل ح وفي التتارخانية: لا يكفر بالمحتمل، لأن الكفر نهاية في العقوبة فيستدعي نهاية في الجناية ومع الاحتمال لا نهاية اهـ والذي تحرر أنه لا يفتى بكفر مسلم أمكن حمل كلامه على محمل حسن أو كان في كفره اختلاف ولو رواية ضعيفة فعلى هذا فأكثر ألفاظ التكفير المذكورة لا يفتى بالتكفير فيها ولقد ألزمت نفسي أن لا أفتي بشيء منها اهـ كلام البحر باختصار."

(کتاب الجهاد ، باب المرتد ،ج:4،ص: 223 - 224، ط: دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411102031

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں