بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عمرے میں حلق واجب ہونے کی صورت میں قصر کرنے کا حکم


سوال

کئی سال سے میں سعودی عرب میں ہوں، یعنی 2001 سے اسی سال میں نے پہلا عمرہ کیا تھا، جس میں میں نے حلق یعنی استرے سے بال منڈوائے تھے اس کے بعد میں نے 2 حج اور کئی عمرے ادا کیے ہیں، الحمدللہ۔  حج  میں تو  میں  نے حلق کیا ہے اور  اکثر عمروں میں بھی حلق کیاہے، اب مسئلہ یہ ہے کہ اس جنوری کی 18 تاریخ کو میں نے عمرہ ادا کیا اور بالوں پر مشین چلایا اس کے بعد 22جنوری کو عمرہ ادہ کیا اس پر بھی مشین سے بال کاٹے، پھر 28 جنوری کو عمرہ ادا کیا اس پر بھی مشین سے بال  چھوٹے کروائے تو اس صورت میں میرا عمرہ ادا ہو گیا؟ اور اگر  کوئی غلطی ہو گئی ہے تو  بھی رہنمائی فرمائیں، لوگ کہتے ہیں کہ پہلا عمرہ فرض ہے، اس میں حلق لازمی ہے، اس کے بعد اگر حلق نہیں کیا تو کوئی حرج نہیں!

جواب

عمرہ کا احرام کھولنے کے لیے   افضل یہ ہے کہ   "حلق  " کروائے، یعنی استرے سے پورے سر کے بال صاف کر  وائے، اور  اگر "قصر" کرے،یعنی پورے سر کے بال کم از کم ایک پور کے برابر قینچی یا مشین وغیرہ سے  کٹوا دےتو یہ بھی بلا کراہت جائز ہے،خواہ پہلا حج یا عمرہ ہو یا دوسرا یا تیسرا ہو   ، سب میں ایک ہی حکم ہے،حدیث شریف میں ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی :اللهم ارحم المحلقين(اے الله !سر منڈانے والوں  پر رحم فرما !) صحابہ كرام رضي اللہ تعالی عنہم نے عرض كي :اے اللہ كے رسول بال كاٹنے والوں پر  بھی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر فرمایا:اللهم ارحم المحلقين(اے الله !سر منڈانے والوں  پر رحم فرما !)، صحابہ كرام رضي اللہ تعالي عنہم نے پھربال کاٹنے والوں  کا تذکرہ کیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر فرمایا:  اللهم ارحم المحلقين(اے الله !سر منڈانے والوں  پر رحم فرما !)صحابہ كرام رضی اللہ تعالی عنہم نے پھربال کاٹنے والو ں  کی یاد دہانی فرمائی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے چوتھی مرتبہ  بال كاٹنے والوں پررحمت  کی دعا فرمائی۔

تاهم  اگر سر کے بال ایک پور سے چھوٹے ہوں تو  حلق کروانا واجب ہے، قصر جائز نہیں۔

لہذا  آپ نے جب 18 جنوری کو عمرہ کرنے کے بعد مشین سے بال کٹوائے تھے وہ کم ازکم ایک پورے کے برابر تھے تو ٹھیک تھا، اس کے بعد اگر بال ایک پور سے کم تھے تو آپ پر لازم تھا کہ آئندہ دو عمروں یعنی 22 جنوری اور 28 جنوری  کے عمروں میں حلق کرواتے،لیکن آپ نے حلق نہیں کروایا،دونوں عمروں میں حلق کو چھوڑنے کی وجہ سے جو دم واجب ہوئے ان کی تفصیل یہ ہے:

1۔حلق نہ کروانے کی وجہ سے ابھی  22 جنوری والے عمرے کا احرام باقی تھا کہ آپ نے 28 جنوری کو دوسرے عمرے کا احرام باندھ لیا،احرام پر احرام باندھنے کی وجہ سے آپ پر ایک دم واجب ہوا۔

2۔۔۔ 28 جنوری والے عمرے کےبعد آپ پر حلق کروانا واجب تھا،حلق نہ کرنے کی وجہ سے آپ کا احرام باقی ہے، لہذا آپ نے اس حالت میں جنایات ِ احرام میں سے ایک یا زائد  جتنی  جنایات کا ارتکاب کیا، مثلاً سلے ہوئے کپڑے پہنے، یا خوشبو لگائی ،ان سب جنایات کی طرف سے ایک دم واجب ہے۔

حلق حدود حرم میں کروانا ضروری ہے، اگر آپ نے حدودِ حرم سے باہر حلق کیا تو اس کی وجہ سے مزید ایک دم واجب ہوگا، البتہ   حلق کروا کر  آپ  احرام سے نکل جائیں گے۔

باقی یہ بات درست نہیں کہ" پہلا عمرہ فرض ہے، اور اس میں حلق لازمی ہے"،  بلکہ ہمارے نزدیک عمرہ سنتِ مؤکدہ ہے۔

بدائع الصنائع  میں ہے:

"وأما التقصير فالتقدير فيه بالأنملة؛ لما روينا من حديث عمر - رضي الله عنه -، لكن أصحابنا قالوا: يجب أن يزيد في التقصير على قدر الأنملة؛ لأن الواجب هذا القدر من أطراف جميع الشعر، وأطراف جميع الشعر لايتساوى طولها عادةً بل تتفاوت فلو قصر قدر الأنملة لايصير مستوفياً قدر الأنملة من جميع الشعر بل من بعضه، فوجب أن يزيد عليه حتى يستيقن باستيفاء قدر الواجب فيخرج عن العهدة بيقين". 

( فصل مقدار واجب الحلق والتقصير،ج:2،ص:141 ط: سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وإذا جاء وقت الحلق ولم يكن على رأسه شعر بأن حلق قبل ذلك أو بسبب آخر ذكر في الأصل أنه يجري الموسى على رأسه؛ لأنه لو كان على رأسه شعر كان المأخوذ عليه إجراء الموسى، وإزالة الشعر فما عجز عنه سقط وما لم يعجز عنه يلزمه، ثم اختلف المشايخ في إجراء الموسى أنه واجب أو مستحب، والأصح أنه واجب، هكذا في المحيط".

( الباب الرابع فیما یفعله المحرم  بعد الإحرام ،ج:1،ص:231 ط: رشیدیة)

فتاوی ہندیہ ہے:

"ومن فرغ من عمرته إلا التقصير فأحرم بأخرى فعليه دم لإحرامه قبل الوقت وهو دم جبر وكفارة، كذا في الهداية".

(كتاب المناسك، باب اضافة الإحرام الي الإحرم، ج:1،ص:254،ط:دار الفكر)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"أن الحلق أو التقصير، واجب لما ذكرنا فلا يقع التحلل إلا بأحدهما و لم يوجد فكان إحرامه باقيا فإذا غسل رأسه بالخطمي فقد أزال التفث في حال قيام الإحرام فيلزمه الدم، والله أعلم".

(کتاب الحج، فصل الحلق أو التقصير، ج:2، ص:140، ط: دار الکتب العلمية)

الفتاویٰ التاتارخانیہ میں ہے:

"وفي حق المعتمر لایختص بالزمان أو المکان بلاخلاف و في الهدایة : و التقصیر و الحلق في العمرة غیر مؤقتة بالزمان بالإجماع فإن لم یقصر حتی رجع و قصر فلاشیئ علیه في قولهم جمیعاً".

 

(کتاب الحج، في الحلق والقصر، ج:2، ص:544، ط: إدارۃ القرآن)

فتاوی شامی ہے:

«‌أن ‌المحرم ‌لو ‌نوى الرفض ففعل كالحلال على ظن خروجه من الإحرام بذلك لزمه دم واحد لجميع ما ارتكب لاستناد الكل إلى قضاء واحد وعللوا ذلك بأن التأويل الفاسد معتبر في دفع الضمانات الدنيوية كالباغي إذا أتلف مال العادل أو قتله ولا يخفى استناد الكل هنا إلى قصد واحد أيضا. ولذا قال بعض محشي الزيلعي: ينبغي عدم التعدد هنا أيضا".

(كتاب الحج، باب الإحصار،ج:2،ص:594، ط:سعيد)

وفیہ ایضاً:

"(أو حلق في حل بحج) في أيام النحر، فلو بعدها فدمان (أو عمرة) لاختصاص الحلق بالحرم (لا) دم (في معتمر) خرج (ثم رجع من حل) إلى الحرم (ثم قصر) وكذا الحاج إن رجع في أيام النحر وإلا فدم للتأخير"

(كتاب الحج،باب الجنايات في الحج، ج:2، ص:554، ط:سعيد)

"حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح"  میں ہے:

فصل ‌العمرة ‌سنة :أي مؤكدة على المذهب وصحح في الجوهرة وجوبها وهي إحرام وطواف وسعي وحلق أو تقصير فالإحرام شرط ومعظم الطواف ركن وغيرهما واجب هو المختار ويفعل فيها كفعل الحاج".

(كتاب الحج، فصل العمرة سنة، ص:740، ط:العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(والعمرة) في العمر (مرة سنة مؤكدة) على المذهب وصحح في الجوهرة وجوبها. قلنا المأمور به في الآية الإتمام وذلك بعد الشروع وبه نقول (وهي إحرام وطواف وسعي) وحلق أو تقصير فالإحرام شرط.

قال العلامة ابن عابدين رحمه الله تعالي :قوله والعمرة في العمر مرة سنة مؤكدة) أي إذا أتى بها مرة فقد أقام السنة غير مقيد بوقت غير ما ثبت النهي عنها فيه إلا أنها في رمضان أفضل هذا إذا أفردها فلا ينافيه أن القران أفضل لأن ذلك أمر يرجع إلى الحج لا العمرة.

فالحاصل: أن من أراد الإتيان بالعمرة على وجه أفضل فيه فبأن يقرن معه عمرة فتح، فلا يكره الإكثار منها خلافا لمالك، بل يستحب على ما عليه الجمهور وقد قيل سبع أسابيع من الأطوفة كعمرة شرح اللباب (قوله وصحيح في الجوهرة وجوبها) قال في البحر واختاره في البدائع وقال إنه مذهب أصحابنا، ومنهم من أطلق اسم السنة، وهذا لا ينافي الوجوب. اهـ.

والظاهر من الرواية السنية فإن محمدا نص على أن العمرة تطوع اهـ ومال إلى ذلك في الفتح وقال بعد سوق الأدلة تعارض مقتضيات الوجوب والنفل، فلا تثبت ويبقى مجرد فعله عليه الصلاة والسلام وأصحابه والتابعين، وذلك يوجب السنة فقلنا بها (قوله قلنا المأمور إلخ) جواب عن سؤال مقدر أورده في غاية البيان دليلا على الوجوب، ثم أجاب عنه بما ذكره الشارح، ثم هذا مبني على أن المراد بالإتمام تتميم ذاتهما أي تتميم أفعالهما أما إذا أريد به إكمال الوصف وعليه ما نقله في البحر من أن الصحابة فسرت الإتمام بأن يحرم بهما من دويرة أهله، ومن الأماكن القاصية فلا حاجة إلى الجواب للاتفاق على أن الإتمام بهذا المعنى غير واجب فالأمر فيه للندب إجماعا فلا يدل على وجوب العمرة فافهم".

(كتاب الحج، مطلب في احكام العمرة، ج:2،ص: 472، ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144507101903

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں