بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عمره کا احرام کھولنے کے لیے بال کٹوانے پر اکتفا کرنا


سوال

میں نوکری کی تلاش میں سعودی عرب جانے کا ارادہ رکھتا ہوں، وہاں مجھے کئی جگہ انٹرویوز کے لیے پیش ہونا ہے، اور یہ میرا پہلا عمرہ ہو گا،کیا عمرہ کی ادائیگی کے بعد مکمل سر کے بال منڈانا ضروری ہے یا اس میں کچھ گنجائش ہے؟

جواب

عمرہ کا احرام کھولنے کے لیے سب سے افضل صورت "حلق  "ہے، یعنی استرے سے پورے سر کے بال صاف کر دیے جائیں، اور دوسری صورت "قصر" ہے،یعنی پورے سر کے بال کم از کم ایک پور کے برابر کاٹ دیے جائیں،یہ صورت بھی بلا کراہت جائز ہے،حدیث شریف میں ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی :اللهم ارحم المحلقين(اے الله !سر منڈانے والوں  پر رحم فرما !) صحابہ كرام رضي اللہ تعالی عنہم نے عرض كي :اے اللہ كے رسول بال كاٹنے والوں پر  بھی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر فرمایا:اللهم ارحم المحلقين(اے الله !سر منڈانے والوں  پر رحم فرما !)،صحابہ كرام رضي اللہ تعالي عنہم نے پھربال کاٹنے والو ں کا تذکرہ کیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر فرمایا: اللهم ارحم المحلقين(اے الله !سر منڈانے والوں  پر رحم فرما !)صحابہ كرام رضی اللہ تعالی عنہم نے پھربال کاٹنے والو ں  کی یاد دہانی فرمائی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے چوتھی مرتبہ  بال كاٹنے والوں پررحمت  کی دعا فرمائی۔

 صحیح بخاری میں ہے:

 " حدثنا ‌عبد الله بن يوسف: أخبرنا ‌مالك، عن ‌نافع، عن ‌عبد الله بن عمر رضي الله عنهما: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «اللهم ارحم المحلقين، قالوا: والمقصرين يا رسول الله، قال: اللهم ارحم المحلقين، قالوا: والمقصرين يا رسول الله، قال: والمقصرين» وقال الليث: حدثني نافع: رحم الله المحلقين، مرة أو مرتين. قال: وقال عبيد الله: حدثني نافع: وقال في الرابعة: والمقصرين."

(کتاب المناسک ،باب الحلق والتقصير،رقم الحديث :1727،ج:2 ص:174،ط :السلطانية)  

مبسوط للسرخسي ميں ہے:

"(قال) - رضي الله عنه - الحلق أفضل من التقصير لما روينا من الأثر فيه، ولأن المأمور به بعد الذبح قضاء التفث قال الله تعالى {ثم ليقضوا تفثهم} [الحج: 29]، وهو في الحلق أتم والتقصير فيه بعض الحلق فلهذا كان الحلق أفضل، والتقصير يجزي وهو أن يأخذ شيئا من أطراف شعره، ورواه في الكتاب عن ابن عمر - رضي الله عنه - أنه سئل كم تقصر المرأة؟ فقال مثل هذه يعني مثل الأنملة، وهذا لأنه لو لم يكن على رأسه من الشعر إلا ذلك القدر كان يتم تحلله بأخذه فكذلك إذا كان على رأسه من الشعر أكثر من ذلك يتم تحلله بأخذ ذلك المقدار والتقصير، قائم مقام الحلق في حكم التحلل فإذا فعل ذلك في أحد جانبي رأسه أجزأه بمنزلة ما لو حلق نصف رأسه، وكذلك إن فعله في أقل من النصف، وكان بقدر الثلث أو الربع فكذلك يجزئه؛ لأن كل حكم تعلق بالرأس فالربع منه ينزل منزلة الكمال كالمسح بالرأس، ولكنه مسيء في الاكتفاء بهذا المقدار؛ لأن النبي صلى الله عليه وسلم «حلق جميع رأسه، وأمرنا بالاقتداء به» فما كان أقرب إلى موافقة فعله فهو أفضل، ولأنه إنما يفعل هذا ضنة منه بشعره، وفيما هو نسك تكره الضنة فيه بالمال والنفس فكيف بالشعر."

(کتاب المناسک ، باب الحلق ،ج:4 ص: 70 ،ط: دارالمعرفة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144408102100

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں