بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عمرہ بیسی سسٹم کا حکم


سوال

ہم نے ایک ایسے کام کا آغاز کیا ہے کہ ہم نے ایک گروپ بنایا ہے جس میں ہر مہینہ ہر شخص جو اس گروپ کا ممبر ہو 1000 روپے ایک شخص کے پاس جمع کرے گا اور کچھ مہینے یا سال گزر جائے اور اتنے پیسے اکٹھے ہو جائیں کہ ایک بندہ ان پیسوں پہ عمرے کیلئے جا سکتا ہو تو ہم بذریعہ قرعہ اندازی ایک شخص کو عمرے کیلئے بھیجیں گے ۔ اور قرعہ اندازی میں انہی کے نام ہوں گے جنہوں نے ہر مہینے کم از کم ایک ہزار روپے فنڈ میں جمع کئے ہوں،  اور یہ سلسلہ ہم اس وقت تک جاری رکھیں گے،  جب تک گروپ کا آخری ممبر عمرے کیلئے نہیں جاتا ، اور جو شخص ایک دفعہ عمرے کیلئے چلا جائے تو اگلی دفعہ  اس کا نام قرعہ اندازی میں نہیں ہو گا ، لیکن وہ ہر مہینے پیسے ڈالے گا۔

1) آیا ہمارایہ کام لاٹری قمار میں تو نہیں آتا؟ 2)اور چوں کہ عمرے کی پیکیج کی قیمت تو ایک نہیں رہتی تو یہ ناانصافی تو نہیں ہو گی کہ ایک سال ایک بندہ ایک قیمت پہ عمرے پہ چلا گیا جبکہ اگلے سال دوسرا بندا دوسرے قیمت پہ چلا گیا؟

3)اور اس کو ہم قسط کی طرح سمجھیں یا قرعہ اندازی نکلتے وقت ہم یہ نیت کر لیں کہ جس شخص کا نام نکل آۓ گا ہم سب اسے یہ سارے پیسے بخش دیتے ہیں تاکہ عمرے کے ثواب میں ہمیں بھی حصہ ملے ۔

4) اگر یہ طریقہ جائز نہیں تو اس کی کوئی جائز صورت نکل سکتی ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ بی سی (کمیٹی)   کی حیثیت قرض کی ہے، لہذا اگر اس میں تمام شرکاء برابر رقم جمع کرائیں، اور انہیں برابر رقم دی جائے اورتمام شرکاءاخیرتک شریک رہیں (ایسانہ ہوکہ جس کی کمیٹی نکلتی جائےوہ بقیہ اقساط سے بری الذمہ ہوتاجائے) اور بولی لگا کر فروخت نہ کی جائے تو اس طرح کی بی سی (کمیٹی) ڈالنا جائزہے۔

اگر اس میں غلط شرائط لگائی جائیں، مثلاً: کسی کو کم، کسی کو زیادہ دینے کی شرط یا بولی لگاکر فروخت کی جائے یا جس کی کمیٹی نکلتی جائے وہ بقیہ اقساط سے بری الذمہ قرار پائے تو یہ صورتیں جائز نہیں ہیں،  بعض صورتیں سود  اور بعض جوے  اور سود کے زمرے میں داخل ہوں گی، کیوں کہ  کمیٹی میں ہر شریک اتنی ہی رقم کا مستحق ہوتا ہے جتنی وہ مجموعی اعتبار سے جمع کرائے گا ۔اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ ہر شریک کو ہر وقت بطورِ قرض دی ہوئی اپنی رقم واپس لینے کے مطالبہ کا پورا حق ہو، اس پر جبر نہ ہو۔

1،2۔لہذا صورتِ مسئولہ میں   کمیٹی کی جو طریقہ کار ذکر کیا ہے ،   اس طرح کمیٹی ڈالنا جائز نہیں ہے کیوں کہ  اس میں  ہر ممبر کو اپنے جمع کی ہوئی رقم نہیں ملتی بلکہ کسی کو کم ملتی ہے، اور کسی کو زیادہ ، یعنی  کبھی عمرہ  کا پیکج  مہنگا ہو کر  اس بار شریک اپنے جمع کی ہوئی رقم سے زیادہ وصول کرتا ہے، جو سود ہونے کی وجہ سے جائز نہیں۔

3۔کمیٹی میں ہر مہینہ مقررہ رقم جمع کرنا قرض  ہوتا ہے، لہذا یہ ماہانہ قسط  کے مانند ہوگا۔

4۔صورتِ مسئولہ کا جائز صورت یہ ہے کہ  کمیٹی کا ہر ممبر  اپنے نمبر پر اتنی رقم وصول کرلے جتنی اس نے کمیٹی میں جمع کی ہے، اسی سے اگر عمرہ نہیں ہوسکتا تو بقیہ جیب سے خرچ کرے یا یہی کمیٹی والے ساتھی  احسان کرکے ان کو  ہدیہ کے طور پر دے دے۔

تفسير الرازي   میں ہے:

"اعلم ‌أن ‌الربا ‌قسمان: ربا النسيئة، وربا الفضل....أما ربا النسيئة فهو الأمر الذي كان مشهورا متعارفا في الجاهلية، وذلك أنهم كانوا يدفعون المال على أن يأخذوا كل شهر قدرا معينا، ويكون رأس المال باقيا، ثم إذا حل الدين طالبوا المديون برأس المال، فإن تعذر عليه الأداء زادوا في الحق والأجل، فهذا هو الربا الذي كانوا في الجاهلية يتعاملون به."

(سورة البقرة، اية:275، ج:7، ص:72، ط:دار إحياء التراث العربي)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"كل ‌أمر ‌يتذرع به إلى محظور فهو محظور أي ممنوع ومحرم، ويدخل في ذلك القرض يجر المنفعة."

(كتاب الزكوة، قبيل الفصل الثاني، ج:4، ص:128، ط:امدادية ملتان)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وكان عليه ‌مثل ‌ما ‌قبض) فان قضاه اجود بلا شرط جاز و يجبر الدائن على قبول الاجود و قيل لا هذا هو الصحيح."

(‌‌كتاب البيوع، فصل فی القرض ،مطلب كل قرض  جر نفعا حرام، ج:5، ص:165، ط:سعيد)

وفیہ  ایضا:

"(قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا."

(‌‌كتاب البيوع، فصل فی القرض ،مطلب كل قرض  جر نفعا حرام، ج:5، ص:165، ط:سعيد)

وفيه ایضا:

"فإن ‌الديون ‌تقضى ‌بأمثالها فيثبت للمديون بذمة الدائن مثل ما للدائن بذمته."

(كتاب الشركة، ج:4، ص:320، ط:سعيد)

المحیط البرہانی میں ہے:

"أن الواجب على المستقرض رد ‌مثل ‌ما ‌قبض وعلى الغاصب كذلك، وقد حصل قبض الفلوس وهي رائجة، فيجب رد مثلها من ذلك الضرب رائجة."

(كتاب البيوع، ج:5، ص:129، ط:دارالكتب العلمية)

فتح القدير لابن الهمام میں ہے:

" ولذلك أجمع على عدم الإقراع عند تعارض البينتين للعمل بأحدهما، وعلى عدمها أيضا عند تعارض الخبرين، ونحن لا ننفي شرعية القرعة في الجملة بل نثبتها شرعا لتطييب القلوب ودفع الأحقاد والضغائن كما فعل - عليه الصلاة والسلام - للسفر بنسائه، فإنه لما كان سفره بكل من شاء منهن جائزا إلا أنه ربما يتسارع الضغائن إلى من يخصها من بينهن فكان الإقراع لتطييب قلوبهن، وكذا إقراع القاضي في الأنصباء المستحقة والبداية بتحليف أحد المتحالفين إنما هو لدفع ما ذكرنا من تهمة الميل. والحاصل أنها إنما تستعمل في المواضع التي يجوز تركها فيها لما ذكرنا من المعنى، ومنه استهام زكريا - عليه السلام - معهم على كفالة مريم - عليها السلام - كان لذلك، وإلا فهو كان أحق بكفالتها لأن خالتها كانت تحته."

 (كتاب العتاق، ج:4، ص:493، ط:دار الفكر، لبنان)

و فیہ ایضاً:

"ومثاله أن ‌القرعة ليست بحجة، ويجوز استعمالها في تعيين الأنصباء لدفع التهمة عن القاضي فصلحت دافعة لا موجبة."

(كتاب الوصايا، فصل في الشهادة، ج:10، ص:513، ط:دار الفكر، لبنان)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501102310

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں