بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیرعالم کی اقتدا میں عالم کی نماز پڑھنے کا حکم


سوال

اگر غیر عالم امامت کر رہا ہو اور اسی وقت کوئی عالم حاضر ہو گیا تو اس وقت عالم کیا کرے؟

جواب

از رُوئے شرع امامت کا زیادہ مستحق شخص وہ ہے، جو نماز کے مسائل اچھی طرح سے جانتا ہو، (یعنی عالم ہو)  اور نماز میں جس قدر قراءت کرنا مسنون ہے اتنی مقدار اسے یاد  بھی ہو ، اور بظاہر متقی پرہیزگار ہو، اس کے بعد وہ شخص ہے جو قرآن مجید اچھا پڑھتا ہو،(یعنی عمدہ آواز میں پڑھتا ہو) اورقراءت تجوید کے موافق ہو،پھر وہ شخص جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو،  پھر وہ شخص زیادہ مستحق ہے جو جس کی عمر زیادہ ہو ۔

بصورت مسئولہ فی نفسہ تو امامت کا زیادہ حق دار عالم ہی ہے، تاہم اگر صحیح قرآن مجید پڑھنے والا اورنماز کی حد تک مسائل سے واقف کوئی  غیرعالم  نماز پڑھا رہا ہے اور عالم اس کی اقتدا  کرکے نماز پڑھ رہا ہے، تو نماز درست ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(والأحق بالإمامة) تقديما بل نصبا مجمع الأنهر (الأعلم بأحكام الصلاة) فقط صحة وفسادا بشرط اجتنابه للفواحش الظاهرة، وحفظه قدر فرض، وقيل واجب، وقيل سنة (ثم الأحسن تلاوة) وتجويدا (للقراءة، ثم الأورع) أي الأكثر اتقاء للشبهات. والتقوى: اتقاء المحرمات (ثم الأسن) أي الأقدم إسلامًا.

(قوله: وقيل: سنة) قائله الزيلعي، وهو ظاهر المبسوط كما في النهر؛ ومشى عليه في الفتح. قال: وهو الأظهر لأن هذا التقديم على سبيل الأولوية؛ فالأنسب له مراعاة السنة (قوله: ثم الأحسن تلاوة وتجويدا) أفاد بذلك أن معنى قولهم أقرأ: أي أجود، لا أكثرهم حفظا وإن جعله في البحر متبادرا، ومعنى الحسن في التلاوة أن يكون عالما بكيفية الحروف والوقف وما يتعلق بها قهستاني (قوله: أي الأكثر اتقاء للشبهات) الشبهة: ما اشتبه حله وحرمته، ويلزم من الورع التقوى بلا عكس. والزهد: ترك شيء من الحلال خوف الوقوع في الشبهة، فهو أخص من الورع، وليس في السنة ذكر الورع، بل الهجرة عن الوطن. فلما نسخت أريد بها هجرة المعاصي بالورع، فلا تجب هجرة إلا على من أسلم في دار الحرب، كما في المعراج ."

(كتاب الصلوة، باب الامامة، ج:1، ص:557، ط:ايج ايم سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) اعلم أن (صاحب البيت) ومثله إمام المسجد الراتب (أولى بالإمامة من غيره) مطلقًا.

(قوله: مطلقًا) أي وإن كان غيره من الحاضرين من هو أعلم وأقرأ منه. وفي التتارخانية: جماعة أضياف في دار نريد أن يتقدم أحدهم ينبغي أن يتقدم المالك، فإن قدم واحدا منهم لعلمه وكبره فهو أفضل، وإذا تقدم أحدهم جاز لأن الظاهر أن المالك يأذن لضيفه إكرامًا له." 

(كتاب الصلوة، باب الامامة، ج:1، ص:557، ط:ايج ايم سعيد)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144206200945

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں