بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عمدہ کھانا پہننا/ نامحرم خواتین کے ساتھ کام کرنا/ سیر وسیاحت کا حکم


سوال

1- عمدہ کپڑے پہننااور عمدہ طعام اور عمدہ مشروب(کھانے پینے کی)شرعی حیثیت؟کیا یہ اسراف ہے؟

2- آفس میں نامحرم نوجوان لڑکیاں بے پردہ کھلے عام رہتی ہیں کمپنی کے کام کی وجہ سے اُن سے بات چیت کرنی پڑتی ہے،حتّٰی کہ کبھی کبھی خلوت میں بھی اور میں غیر شادی شدہ ہوں،اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟

3- مجھے شروع سے ہی قدرتی مقامات  جیسے گلگت،سکردو اوربلتستان کی خوب صورتی  اپنی طرف کھینچتی ہے،میں وہاں جانا چاہتا ہوں،سیاحت کے بارے میں شرعی کیا حکم ہے؟نیز قرآن کریم کی آیت (زمین کی سیر کرو اور دیکھو کس طرح ان کو اللہ تعالی نے تخلیق کیا ہے) کے صحیح معانی بیان  کیجیے!

جواب

1۔ واضح رہے کہ ضرورت سے زائد خرچ کرنا، یا گناہ اور لایعنی فضول کاموں میں خرچ کرنا، یا فخر و ریا اور لوگوں کو نیچا دکھانے کے لئے خرچ کرنا، اسراف کہلاتا ہے۔ لیکن  اپنی حیثیت اور استطاعت کے مطابق جائز کاموں میں خرچ کرنا یا اپنی استطاعت کے مطابق اچھا پہننا اچھا کھانا اچھا کھلانا، یہ اسراف میں نہیں آتا۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جب اعلی کپڑا میسر آیا تو آپ  ﷺ نے پہنا بھی اور لوگوں اعلی چیز ہدیہ بھی کی ہیں۔

حدیث شریف میں ہے:

" عن أنسِ بن مالكٍ: أنَّ ملكَ ذِي يَزَن أهدى إلى رسولِ الله صلَّى الله عليه وسلم حُلَّةً أخذها بثلاثَةٍ وثلاثينَ بعيراً، أو ثلاثٍ وثلاثينَ ناقةً، فقبِلها."

(سنن أبي داؤد، كتاب اللباس،باب لبس المرتفع من الثياب، رقم الحديث: 4034)

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی  اللہ اعنہ سے روایت ہے کہ ذی یزن کے بادشاہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک جوڑا جس کی قیمت تینتیس اونٹ تھی، بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے قبول فرمایا۔

"عن إسحاقَ بنِ عبدِ الله بنِ الحارِثِ: أن رسولَ الله صلَّى الله عليه وسلم اشترى حُلّةً ببِضعةٍ و عشرين قَلُوصاً، فأهداها إلى ‌ذِي ‌يَزَن."

(سنن أبي داؤد، كتاب اللباس،باب لبس المرتفع من الثياب، رقم الحديث: 4035)

ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیس سے اوپر اونٹنیوں کے بدلے ایک جوڑا خرید کر ذی یزن کے بادشاہ کو بھیجا۔

رد المحتار میں ہے:

" (قوله: من غير تقتير و لا تبذير) التقتير هو التقصير و التبذير يستعمل في المشهور بمعنى الإسراف، و التحقيق أن بينهما فرقًا و هو أن الإسراف صرف الشيء فيما ينبغي زائدًا على ما ينبغي، و التبذير صرفه فيما لاينبغي، صرح به الكرماني في شرح البخاري."

(759/6، سعید)

2۔ شریعتِ مطہرہ میں نامحرم مرد و زن کے اختلاط سے سختی سے منع کیا گیا ہے، نامحرم عورتوں سے بلاضرورتِ شرعیہ بات کرنا، ان کی طرف دیکھنا شرعاً جائز نہیں ہے، خصوصاً ایسا مخلوط ماحول جہاں مرد اور عورت ایک ہال میں اکیلے ہوں ، کوئی تیسرا شخص نہ ہو ، ایسی خلوت کسی اجنبی عورت کے ساتھ جائز نہیں ۔ 

 حدیث شریف میں ہے:

"عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِيَّاکُمْ وَالدُّخُولَ عَلَی النِّسَاء! فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَفَرَأَيْتَ الْحَمْوَ؟ قَالَ: الْحَمْوُ الْمَوْتُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَجَابِرٍ وَعَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ أَبُو عِيسَی: حَدِيثُ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَإِنَّمَا مَعْنَی کَرَاهِيَةِ الدُّخُولِ عَلَی النِّسَاء عَلَی نَحْوِ مَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلَّا کَانَ ثَالِثَهُمَا الشَّيْطَانُ". 

(الجامع السنن للترمذی،  ابواب الرضاع، ‌‌باب ما جاء في كراهية الدخول على المغيبات، رقم الحديث:1171)  

ترجمہ:  حضرت عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:عورتوں کے پاس داخل ہونے سے پرہیز کرو ، ایک انصاری شخص نے عرض کیا:  یا رسول اللہ ﷺ حمو (یعنی شوہر کا باپ، بھائی اور عزیز واقارب) کے بارے میں  کیا ارشاد ہے؟  آپ نے فرمایا :’’حمو‘‘ تو موت ہے۔  اس باب میں حضرت عمر اور جابر، عمرو بن عاص سے بھی روایت ہے۔ حضرت عقبہ بن عامر کی حدیث حسن صحیح ہے، عورتوں کے پاس  جانے سے ممانعت کا مطلب اسی طرح ہے جیسے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :جب کوئی شخص کسی تنہا عورت کے پاس ہو تو تیسرا شیطان ہوتا ہے۔

خلاصہ یہ کہ غیر محرم عورت کے ساتھ خلوت (تنہائی میں رہنا) جائز نہیں ہے؛ لہذا کوشش کرکے اسی ادارے میں اپنا کام یا شعبہ تبدیل کروالیجیے، جہاں اس طرح عورتوں کے ساتھ تنہائی کا موقع نہ ملتا ہو یا اسی جگہ کی ترتیب ایسی بنوالیجیے کہ اس ہال میں ایک مرد یا ایک عورت تنہا نہ ہو، یعنی صرف ایک مرد یا صرف ایک عورت کے اضافے سے یہ ممانعت ختم نہیں ہوگی۔  ورنہ دوسری جگہ ملازمت کی فوری تلاش شروع کیجیے، اور قدرِ کفایت روزگار ملتے ہی یہاں سے ملازمت چھوڑ دیجیے، گو دوسری جگہ تنخواہ نسبتاً کم ہو۔  اور جب تک دوسری جگہ ملازمت نہیں مل جاتی مسلسل توبہ و استغفار کرتے ہوئے اللہ کی طرف رجوع کیجیے، متبادل کی دعا بھی کرتے رہیے، نیز  درج ذیل باتوں کا سختی سے اہتمام بھی کیجیے:

1-  جس ہال میں بیٹھنا ہو اس کا دروازہ یا کھڑکی وغیرہ مکمل وقت کھول کر رکھیں، اور اپنی نشست ایسی جگہ بنالیں کہ باہر سے گزرنے والے لوگوں کی نگاہ آپ پر پڑتی رہے، یعنی مکمل طور پر خلوت بالاجنبیہ نہ ہونے دیں۔ 

2- خواتین کے چہرے کی طرف نگاہ نہ کریں۔ 

3-  مجبوراً   اگراس غیر محرم عورت سے بات کرنے کی ضرورت پیش آجائےتو  بوقتِ ضرورت بقدرِ ضرورت بات کریں، بلاضرورت باتیں،  ہنسی مزاح کرنے یا اس کا جواب دینا  یا بلاضرورت اس کی طرف دیکھنا جائز نہیں ہے، اس سے اجتناب کریں۔

الدر المختار میں ہے:

" إلا من أجنبیة فلایحلّ مسّ وجهها وکفها وإن أمن الشهوة؛ لأنه أغلظ ... وفي الأشباه: الخلوة بالأجنبیة حرام … ثم رأیت في منیة المفتي مانصه: الخلوة بالأجنبیة مکروهة وإن کانت معها أخریٰ کراهة تحریم ."

(260/5، سعید)

3۔شرعی حدود  کی رعایت کرتے ہوئے  سیر و تفریح کے  لیے جانا جائز ہے، نیت  اللہ کی نعمتوں کا مشاہدہ کرنے اور عبرت حاصل کرنے کی ہو۔

قرآنِ کریم میں ارشاد ہے:

" قُلْ سیرُوا فِي الْاٴَرْضِ فَانْظُرُوا كَیْفَ بدءَ الْخلقَ " (العنکبوت:20)
ترجمہ:  کہو کہ زمین میں گھوم پھر کر دیکھو  کہ خدا نے کیسے تخلیق کی ۔

" اٴَ فَلَمْ یَسیرُوا فِي الْاٴَرْضِ فَتَكُوْنَ لَهُمْ قُلُوبٌ یَعْقِلُونَ بِهَا. " (الحج: 46)

ترجمہ:کیا یہ لوگ زمین پر چلے  پھرے نہیں تاکہ ان کے دل اس سے کچھ عقل حاصل کرتے۔

" قُلْ سیرُوا فِي الْاٴَرْضِ فَانْظُرُوا كَیْفَ كَانَ عاقِبَةُ الْمُجْرِمینَ" (النمل:69)

ترجمہ: ان سے کہیں کہ زمین میں چل  پھر کر دیکھو کہ مجرموں کا کیا انجام ہوا ۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100700

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں