بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

”عمر سیریز“ (Umar Series) دیکھنے کا حکم


سوال

ایک دار الافتاء کا فتویٰ ہے کہ ”عمر سیریز“ دیکھنا جائز نہیں ہے، مگر پتہ نہیں کہ اس کے ڈائریکٹر نے اس فلم میں کون سی باتیں فلمائی گئی ہوں اور بعض مقدس ہستیوں کی شکلیں بھی دیکھائی گئی ہیں،  میرا سوال یہ ہے کہ اگر یہ سب ناجائز ہے تو ایک مشہور عالمِ دین تو خود اس کے ڈائریکٹر ہیں اور اس کو دیکھنے کی اجازت بھی دی ہے ،مہربانی کرکے جواب جلد عنایت فرمائیں ؛کیوں کہ ہمارے جموں و کشمیر میں اس کا دیکھنا عام ہونے لگ گیا ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں کسی بھی جاندار کی تصویر پر مشتمل فلم کا دیکھنا شرعاً جائز نہیں، بل کہ سخت حرام ہے؛ کیوں کہ عموماً  ایسی فلمیں موسیقی ناچ گانے، بد نگاہی کے اسباب سے خالی نہیں ہوتی،  اس میں جان دار کی تصاویر اور ویڈیو کا دیکھنا بھی لازم آئے گا، اور جان دار کی تصویر یا ویڈیو بنانا، بنوانا، دیکھنا اور اپنے پاس رکھنا جائز نہیں ہے، نیز مقدس ہستیوں کو خود ساختہ شکل دینا بھی ان ہستیوں کی گستاخی ہے، لہذا اس قسم کی فلموں کو  دیکھنا یا دیکھنے  کی ترغیب دینا  بُرائی کو پھیلانے اور گناہ کے کاموں میں معاونت  ہونے کی وجہ سے جائز نہیں۔

شریعت کا حکم تو یہی ہے، باقی جنہوں نے ایسی فلمیں بنانے اوردیکھنے کی اجازت دی تھی وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک خود جواب دہ ہوں گے۔

نیز یہ بھی واضح رہے کہ خلفاءِ راشدین رضی اللہ عنہم کی تاریخ جاننا ایک قابلِ تحسین عمل ہے تاہم اس تاریخ کو  جاننے کے لیے مستند کتبِ تاریخ سے استفادہ کیا جاسکتاہے، اور اسلامی تاریخ پڑھنے کے لیے مستند اور جائز ذرائع کو ہی اختیار کرنا چاہیے۔

حدیث شریف میں مروی ہے:

"وعن جرير قال:وذکر الحدیث فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من سن في الإسلام سنة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها من بعده من غير أن ينقص من أجورهم شيء ومن سن في الإسلام سنة سيئة كان عليه وزرها ووزر من عمل بها من بعده من غير أن ينقص من أوزارهم شيء» . رواه مسلم."

(مشکوۃ المصابیح، کتاب العلم، الفصل الأول، رقم الحدیث:210، ج:1، ص:72، ط:المکتب الاسلامی)

ترجمہ: ”حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو آدمی اسلام میں کسی نیک طریقہ کو رائج کرے تو اسے اس کا بھی ثواب ملے گا اور اس کا ثواب بھی جو اس کے بعد اس پر عمل کرے لیکن عمل کرنے والے کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی اور جس آدمی نے اسلام میں کسی برے طریقہ کو رائج کیا تو اسے اس کا بھی گناہ ہوگا اور اس آدمی کا بھی جو اس کے بعد اس پر عمل کرے گا۔ لیکن عمل کرنے والے کے گناہ میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔“

فتاوی شامی میں ہے:

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ".

( كتاب الصلاة، مطلب: مكروهات الصلاة، ج:1، ص:667، ط: سعيد)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

 "(وعن نافع - رضي الله عنه - قال: كنت مع ابن عمر في طريق، فسمع مزمارا، فوضع أصبعيه في أذنه وناء) : بهمز بعد الألف أي: بعد (عن الطريق إلى الجانب الآخر) أي: مما هو أبعد منه (ثم قال لي: بعد أن بعد) : بفتح فضم أي: صار بعيدا بعض البعد عن مكان صاحب المزمار (يا نافع! هل تسمع شيئا؟) أي: من صوت المزمار (قلت: لا، فرفع أصبعيه من أذنيه، قال) : استئناف بيان وتعليل بالدليل (كنت مع رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فسمع صوت يراع) : بفتح أوله أي: قصب (فصنع مثل ما صنعت) أي: من وضع الأصبعين في الأذنين فقط، أو جميع ما سبق من البعد عن الطريق ومراجعة السؤال والله أعلم. (قال نافع: وكنت إذ ذاك صغيرا) : ولعل ابن عمر أيضا كان صغيرا فيتم به الاستدلال والله أعلم بالحال، مع أنه قد يقال إنه أيضا كان واضعا أصبعيه في أذنيه، فلما سأله رفع أصبعيه فأجاب وليس حينئذ محذور، فإنه لم يتعمد السماع، ومثله يجوز للشخص أن يفعل أيضا بنفسه إذا كان منفردا، بل التحقيق أن نفس الوضع من باب الورع والتقوى ومراعاة الأولى، وإلا فلا يكلف المرء إلا بأنه لم يقصد السماع لا بأنه يفقد السماع والله أعلم.".

( باب البیان والشعر ، الفصْل الثالث، ج:9، ص:51، ط: مكتبه حنيفيه)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408100348

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں