بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عمر میں برکت حاصل کرنے کے اسباب


سوال

 موت کا ایک دن مقرر ہے لیکن کیا کوئی دعا یا کوئی ایسا عمل ہے جس سے موت کا وقت تبدیل کرسکتا ہے؟ مثلاً ایک آدمی کسی جنگ زدہ علاقے یا ایسی جگہ جانے سے گریز کرے جہاں پر اُن کے موت کے( 90)فیصد چانس ہو، اس کے بجاۓ وہ بندہ وہاں جانا ترک کردے؟ ایک اور مثال ایک بندہ پولیس/فوج میں نوکری کرنا چاہتا ہے لیکن وہ اس وجہ سے چھوڑ دے کہ گولی لگنے کا خطرہ (90)فیصد ہے تو کیا وہ وقت سے پہلے موت سے بچ سکتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ ہرانسان  کی موت کا وقت اس  کی تقدیر سے معلق ہے، اور  موت آنے کا جو وقت تقدیر میں لکھا ہے اسی وقت پر  آنا ہے، اور یہی  ایک اٹل حقیقت ہے، محض احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے موت کا وقت تبدیل نہیں ہوتا، کچھ لوگ باوجود زیادہ احتیاط کرنے کے ایسی عمر میں انتقال کرجاتے ہیں جو وہم اور گمان  میں بھی  نہیں ہوتا، تاہم مختلف احادیثِ مبارکہ میں کچھ اعمال جیسے دعا/ والدین کی خدمت اور لوگوں کی خدمت کرنے وغیرہ سے موت کو ٹلنے کے بارے میں بتایا گیا ہے، جیسے کہ حدیث شریف میں مروی ہے:

"عن سلمان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا يرد القضاء إلا الدعاء، ولا يزيد في العمر إلا البر»: وفي الباب عن أبي أسيد وهذا حديث حسن غريب".

(جامع الترمذي، الجامع الصحيح، کتاب القدر، باب ماجاء لا يرد القدر إلا الدعاء، رقم : 2139، ج:4، ص:448، ط:مطبعۃ مصطفی الحلبی)

ترجمہ: حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صرف دعا ہی قضا کو ٹالتی ہے اور صرف نیکی ہی عمر میں اضافہ کرتی ہے۔

مذکورہ حدیث میں دعا اور نیکی کو تقدیر بدلنے موت کا وقت ٹالنے کا سبب قرار دیا گیا ہے، تاہم اس کی تشریح سے پہلے بطورِ تمہید مندرجہ ذیل باتوں کو سمجھنا چاہیے:

تقدیر کی درج ذیل دو قسمیں ہیں :

1- تقدیر مبرم ۔ 2-تقدیر معلق۔

پہلی قسم "تقدیر مبرم" ہے۔ یہ آخری فیصلہ ہوتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے لوحِ محفوظ پر لکھ دیا جاتا ہے، اور اس میں تبدیلی نا ممکن ہے۔

دوسری قسم "قضائے معلق" کی ہے ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ وعدہ ہے کہ اگر کوئی بندہ چاہے تو ہم اس کےنیک عمل اور دعا کے ساتھ ہی اس کی تقدیر بھی بدل دیں گے۔ سورۃ الرعد میں ارشاد فرمایا :

"{يَمْحُو اللّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ}." [الرعد :39]

ترجمہ: اللہ جس (لکھے ہوئے) کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جسے چاہتا ہے) ثبت فرما دیتا ہے اور اسی کے پاس اصل کتاب (لوح محفوظ) ہے۔

تقدیر کی اقسام سمجھنے کے بعد اب حدیث کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ مذکورہ حدیث میں نیکی کرنے سے عمر میں اضافہ ہونے کا مطلب یہ ہےعمر سے مراد وہ عمر ہے جس کا تعلق تقدیرِ معلق سے ہے، یعنی مثلًا کسی کی تقدیر معلق میں لکھا ہے کہ اگر اس شخص نے حج یا عمرہ نہیں کیا تو اس کی عمر چالیس سال ہوگی اور اگر حج یا عمرہ کیا تو اس کی عمر ساٹھ سال ہوگی، اب اگر وہ حج یا عمرہ کرلیتا ہے تو اس کی عمر ساٹھ سال ہوجاتی ہے، گویا نیکی کی وجہ سے اس شخص کی عمر میں اضافہ ہوگیا، جب کہ تقدیر مبرم یہی تھی یہ شخص یہ والی نیکی کرے گا اور اس کی عمر ساٹھ سال ہوگی۔

یا یہ مطلب ہے کہ  عمر کے بڑھنے سے عمر میں برکت ہونا اور زیادہ نیک اعمال کرنے کی توفیق ملنا ہے، یعنی اس کی عمر کے اوقات ضائع نہیں ہوتے؛ اس لیے وہ تھوڑے سے عرصہ میں اتنے سارے کام اور اعمال کرلیتا ہے جو دوسرے لوگ بہت زیادہ وقت میں بھی نہیں کرپاتے ہیں۔(جیسا کہ بہت سارے اولیاء اللہ کی زندگی کے مشاہدہ سے یہ بات ثابت بھی ہوچکی ہے۔)

اب تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کی عمر کی جو حتمی مدت اللہ تعالیٰ کے علم میں باعتبار تقدیر مبرم کے ہے، اس میں تو کوئی تبدیلی ہرگز نہیں ہوسکتی ہے ، البتہ روح قبض کرنے والے فرشتہ کی بنسبت عمر میں تبدیلی ہوسکتی ہے، یعنی مثلًا ملک الموت کو حکم دیا گیا ہو کہ فلاں شخص کی روح چالیس سال کی عمر میں قبض کرنی ہے، لیکن پھر اس کی کسی نیکی کی وجہ سے ملک الموت کو حکم ہوجائے کہ اس کی روح چالیس نہیں، بلکہ پچاس سال کی عمر میں قبض کرنی ہے، تو گویا ملک الموت کو حکم دینے کے اعتبار سے تو اس کی عمر میں اضافہ ہوگیا، لیکن اللہ تعالیٰ کے یہاں لوح محفوظ میں اس کی عمر ابتداءً ہی پچاس سال لکھی ہوئی تھی، کیوں کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ کسی کی عمر اللہ کے ازلی علم میں چالیس لکھی ہو اور پھر وہ چالیس سال سے پہلے یا بعد میں مرے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"(وعن سلمان الفارسي) : بكسر الراء وتسكن (قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «لا يرد القضاء إلا الدعاء» ": القضاء: هو الأمر المقدر، وتأويل الحديث أنه أراد بالقضاء ما يخافه العبد من نزول المكروه به ويتوقاه، فإذا وفق للدعاء دفعه الله عنه، فتسميته قضاء مجاز على حسب ما يعتقده المتوقي عنه، يوضحه قوله صلى الله عليه وسلم في الرقي: هو من قدر الله، وقد أمر بالتداوي والدعاء مع أن المقدور كائن لخفائه على الناس وجودا وعدما، ولما بلغ عمر الشام وقيل له: إن بها طاعونا رجع، فقال أبو عبيدة أتفر من القضاء يا أمير المؤمنين! فقال: لو غيرك قالها يا أبا عبيدة، نعم نفر من قضاء الله إلى قضاء الله، أو أراد برد القضاء إن كان المراد حقيقته تهوينه وتيسير الأمر، حتى كأنه لم ينزل. يؤيده قوله في الحديث الآتي: «الدعاء ينفع مما نزل ومما لم ينزل» ، وقيل: الدعاء كالترس، والبلاء كالسهم، والقضاء أمر مبهم مقدر في الأزل " ولا يزيد في العمر ": بضم الميم وتسكن " إلا البر ": بكسر الباء وهو الإحسان والطاعة. قيل: يزاد حقيقة. قال تعالى: {وما يعمر من معمر ولا ينقص من عمره إلا في كتاب} [فاطر: 11] وقال: {يمحو الله ما يشاء ويثبت وعنده أم الكتاب}[الرعد: 39] .

وذكر في الكشاف أنه لا يطول عمر إنسان ولا يقصر إلا في كتاب. وصورته: أن يكتب في اللوح إن لم يحج فلان أو يغز فعمره أربعون سنة، وإن حج وغزا فعمره ستون سنة، فإذا جمع بينهما فبلغ الستين فقد عمر، وإذا أفرد أحدهما فلم يتجاوز به الأربعين فقد نقص من عمره الذي هو الغاية وهو الستون، وذكر نحوه في معالم التنزيل، وقيل: معناه أنه إذا بر لا يضيع عمره فكأنه زاد، وقيل: قدر أعمال البر سببا لطول العمر، كما قدر الدعاء سببا لرد البلاء، فالدعاء للوالدين وبقية الأرحام يزيد في العمر، إما بمعنى أنه يبارك له في عمره فييسر له في الزمن القليل من الأعمال الصالحة ما لا يتيسر لغيره من العمل الكثير، فالزيادة مجازية؛ لأنه يستحيل في الآجال الزيادة الحقيقية.

قال الطيبي: اعلم أن الله تعالى إذا علم أن زيدا يموت سنة خمسمائة استحال أن يموت قبلها أو بعدها، فاستحال أن تكون الآجال التي عليها علم الله تزيد أو تنقص، فتعين تأويل الزيادة أنها بالنسبة إلى ملك الموت أو غيره ممن وكل بقبض الأرواح، وأمره بالقبض بعد آجال محدودة، فإنه تعالى بعد أن يأمره بذلك أو يثبت في اللوح المحفوظ ينقص منه أو يزيد على ما سبق علمه في كل شيء وهو بمعنى قوله تعالى: {يمحو الله ما يشاء ويثبت وعنده أم الكتاب} [الرعد: 39] وعلى ما ذكر يحمل قوله - عز وجل -: {ثم قضى أجلا وأجل مسمى عنده} [الأنعام: 2] فالإشارة بالأجل الأول إلى ما في اللوح المحفوظ، وما عند ملك الموت وأعوانه، وبالأجل الثاني إلى ما في قوله تعالى: {وعنده أم الكتاب} [الرعد: 39] وقوله تعالى: {إذا جاء أجلهم فلا يستأخرون ساعة ولا يستقدمون}[يونس: 49] والحاصل أن القضاء المعلق يتغير، وأما القضاء المبرم فلا يبدل ولا يغير".

(کتاب الدعوات، ج:4، ص:1528، ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311102021

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں