بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

علومِ حدیث سے متعلق چند اہم نکات


سوال

 ایک ذی استعداد نو  فارغ  عالم ، علمِ حدیث سے کسی درجہ واقفیت حاصل کرنا چاہتا ہے، لیکن وہ کہیں تخصص فی الحدیث کرنے کے لیے  جا نہیں سکتا، اسے کون سی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیے؟ اس نے ایسے مدرسہ سے تعلیم حاصل کی جہاں اصولِ حدیث میں  صرف ایک کتاب پڑھائی جاتی ہے: تیسیر مصطلح علم الحدیث  (مولانا محمد انور بدخشانی صاحب)، اس کے علاوہ مطالعہ کے دوران  علامہ سیوطی رحمہ اللہ کی "تدریب الراوی"  کے گنے چنے مقامات دیکھنے کا موقع ملا ہے، ا سی طرح شیخ  محمد عوامہ حفظہ اللہ کا حدیثِ ضعیف پر عمل کے سلسلے  میں ایک رسالہ پڑھا ہے۔ مقاصد میں سے  چند مندرجہ ذیل مذکور ہیں:  

۱- روایات کے درجہ کی تعیین۔

۲- روایات میں متعدد طرق کے درمیان موازنہ: کون سا راجح؟

۳- زیادۃ الثقۃ کی تفصیل۔

۴- جہاں حدیث ضعیف قبول کی جاتی ہیں، وہاں اس اصول کو استعمال کرنے کا طریقہ۔

۵- ائمہ متقدمین میں کس کی تصحیح وتضعیف معتبر ہے ؟

۶- ائمہ احناف رحمہم اللہ  اور باقی حضرات کے اصول کے درمیان  کیا فرق ہے؟ 

جواب

1-  سب سے پہلے تو یہ نکتہ واضح ہونا ضروری ہے کہ کسی بھی فن میں اختصاص کا درجہ حاصل کرنے کے لیے محض شخصی مطالعہ کافی نہیں، بلکہ اس فن کے کسی  ماہر کی نگرانی میں مطالعہ وتحقیق اور  تمرین ضروری  ہے۔

2- آپ نے اصولِ حدیث کی چند کتب کا ذکر کیا ہے، ان میں سے بعض فنی اعتبار سے اہم ضرور ہیں، لیکن یہ فن کی انتہا نہیں، بلکہ فن کی ابتدائی یا متوسط کتب شمار ہوتی ہیں۔   نیز  یہ کتب  فن  کے  نظری  پہلو  سے  متعلق  ہیں،  جب کہ علومِ حدیث کا تطبیقی  پہلو  ان کے نظری پہلو سے زیادہ اہم اور محنت طلب  ہے اور  تطبیق سے متعلق  کتب  میں علومِ حدیث کی گہرائی سے واقفیت ہوتی  ہے۔ 

3- جن چند مباحث کی جانب آپ نے  سوال میں اشارہ کیا ہے، ان کے دونوں پہلو (نظری اور تطبیقی) اہم ہیں، ویب سائٹ کے مختصرسوال جواب میں  ان کے حوالے سے  کسی  نتیجے  تک  پہنچنا  دشوار  ہے،  ان  مباحث  میں  بصیرت  حاصل کرنے  کے لیے کسی  ماہرِ فن کے  اِشراف  میں وسیع مطالعہ اور  تمرین  کی ضرورت ہے۔ 

4-  ائمہ متقدمین میں سے کس کی تصحیح وتضعیف معتبر ہے؟ دراصل اس حوالے سے کوئی کلیہ نہیں بتایا جاسکتا، متقدمین میں بھی ہر نوع کے اہلِ علم رہے ہیں، ان میں سے نقادِ فن کے احکام معتبر ہیں، لیکن ان میں بھی ایسا نہیں کہ ہر حدیث پر ہر ایک کا حکم معتبر ہو، بلکہ تصحیح وتضعیف کے متفقہ اصولوں کی کسوٹی پر جن کا حکم پورا اترے گا، ان کا حکم معتبر ہوگا، ورنہ  توقف کیا جائے گا۔

5- ائمہ احناف اور  باقی حضرات کے اصولوں میں فرق کے متعلق اصولی طور پر یہ نکتہ واضح رہنا چاہیے کہ عام طور پر یہ سمجھا جاتاہے کہ ائمہ احناف کے اصول دیگر ائمہ کے اصولوں سے یک سر  مختلف ہیں اور گویا انہوں نے محدثین کے بالمقابل ایک الگ فن مرتب کردیا ہے، حقیقتِ حال ایسی نہیں، بلکہ محدثین اور ائمہ حنفیہ کے بیش تر  اصول اور مباحث متفقہ ہیں، جزوی امور میں جس طرح محدثین کا آپس میں اختلاف ہے،  ویسے  ہی ائمہ حنفیہ اور محدثین کے درمیان بھی اختلاف ہے، مثلا: مرسل کی حجیت اور اس کی جزوی تفصیلات،  حدیثِ ضعیف کس حد تک قابلِ قبول واستدلال ہے؟ زیادتِ ثقہ کا مسئلہ، وغیرہ۔ ان مسائل کی  قدرے تفصیلات درجِ ذیل کتب میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں: 

(۱) علامہ سیوطی رحمہ اللہ کی "تدریب الراوی"  پر شیخ محمد عوامہ کی تعلیقات۔

(۲) مولانا محمد عبدالمالک مدظلہم  (مشرف شعبہ تخصص فی علوم الحدیث، مرکز الدعوة الإسلامیة ڈھاکہ)  کی حال میں چھپی کتاب "محاضرات علوم الحدیث"۔

(۳)  ہماری جامعہ کے متخصص فی علوم الحدیث مولانا عبدالمجید ترکمانی حفظہ اللہ کا مقالہ "دراسات في أصول الحدیث على منهج الحنفية "، جو  اب جامعہ کے شعبہ مجلسِ دعوت وتحقیقِ اسلامی سے شائع ہوچکا ہے، وغیرہ ۔

6-  ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ بہت سے فضلا کو دورہ حدیث مکمل کرلینے کے بعد متونِ حدیث پر کوئی خاص دست گاہ حاصل نہیں ہوتی، متونِ حدیث میں فقہی احکام کے علاوہ بھی مختلف اہم مضامین ہوتے ہیں، جن کی جانب توجہ کی ضرورت ہے،  مثلًا: ہمارے عہد میں معاشرت  سے متعلق روایات اور فتن سے متعلق احادیث وغیرہ   کی جانب توجہ کی بہت ضرورت ہے، اس پہلو سے بھی ایک وسیع میدان ہے ، جس میں مطالعہ  جاری  رکھنا  چاہیے ، نیز کتبِ  ستہ و دیگر اہم کتبِ حدیث  میں سے ہر  کتاب کی کوئی ایک شرح پوری دیکھنی  چاہیے، کم از کم کسی ایک کتاب کی کوئی  جامع شرح تو  ضرور دیکھ لینی چاہیے۔ 

مذکورہ نکات   میں ضمناً   آپ کے ذکرکردہ امور واضح ہوچکے ہوں گے،   ذیل میں اختصار کے ساتھ  بالترتیب ملاحظہ فرمائیے :

1-  روایات کا درجہ متعین کرنے کا  احوط طریقہ یہی ہے کہ متقدمین ومتاخرین  ائمہ فن کی آراء نقل کردی جائیں، اور اگر کسی حدیث کے متعلق ان کا کلام نہ ملے تو   فن کے معتبر اصولوں کی روشنی میں دراسۃ الحدیث کرنے کے بعد اپنی تحقیق کو ماہرینِ فن کے سامنے پیش کیا جائے ،  فی زمانہ  ہر کس وناکس کی جانب سے حکم علی الحدیث کا شائع ہوتا  ہوا رجحان ، نتائج کے اعتبار سے نہایت خطرناک  اور  قابلِ اصلاح ہے۔ 

2 - تعددِ طرق سے تقویت کا معاملہ بھی  سطحی نہیں، گہری تحقیق کا متقاضی ہے،  تعدد سے کہاں تقویت ہوگی ؟ اور کہاں نہیں ہوگی؟ یہ سب   فن کے دقیق  مباحث ہیں، جس کے لیے ائمہ فن کے کلام کی مراجعت  ضروری ہے۔ 

3 و4-  یہی حال زیادتِ ثقہ  کی قبولیت وعدمِ قبولیت کا ہے اور پھر اس کی تطبیق کا ہے۔ 

5-  ائمہ فن کا حکم معتبر ہے، خواہ متقدمین میں سے ہوں یا متاخرین میں  سے ہوں، احکام کے تعارض کی صورت میں طے شدہ اصولوں کے مطابق  کسی قول کو ترجیح  دی جائے گی ۔ 

6-   نمبر چھے کی تفصیل مذکورہ نکات کے ذیل میں گزر چکی۔ فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144201201149

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں