بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

الٹی (قے) کپڑے پر لگ جائے تو کیا حکم ہے؟


سوال

 اگر الٹی کپڑے پر  لگ جاۓ تو اس سے نماز ہوتی ہے  یا نہیں؟

جواب

قے (الٹی) اگر  منہ بھر کر ہو (خواہ بالغ کی ہو یا نابالغ کی) تو وہ ناپاک ہے، نجاستِ غلیظہ ہے، اس کا حکم  یہ ہے کہ اگر جسم یا کپڑےپر لگ جائے اور مقدار میں ایک  درہم  سے زائدہو، تو اس کا پاک کرنا ضروری ہے، پاک کیے بغیر ان کپڑوں میں نماز نہ ہوگی۔ اور اگر قے منہ بھر کر نہ ہو   تو وہ ناپاک نہیں ہے، دھوئے بغیر بھی نماز ہوجائے گی، تاہم جان بوجھ کر اسے دھوئے بغیر نماز پڑھنا مکروہ ہوگا۔

درہم کی مقدار میں تفصیل یہ ہے کہ اگر الٹی جسم دار ہو (مثلاً کھانے وغیرہ کی قے)، تو اس میں درہم کے وزن کا اعتبار ہے، یعنی ساڑھے چار ماشہ  (4.35گرام) وزن سے زیادہ لگ جائے، تو بدن یا کپڑا ناپاک ہے، اور  اگر الٹی پتلی لیکویڈ کی شکل میں ہو (جیسے پانی وغیرہ)، تو اس میں درہم کی مساحت کا اعتبار ہے، یعنی  ہاتھ کی ہتھیلی کے گڑھے (5.94 مربع سینٹی میٹر) کے پھیلاؤ سے زیادہ کپڑے یا بدن پر لگ جائے تو وہ ناپاک ہے۔

حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

"(وما ينقض الوضوء بخروجه من بدن الإنسان) كالدم ... والقيء ‌ملء ‌الفم ونجاستها غليظة بالاتفاق لعدم معارض دليل نجاستها عنده ولعدم مساغ الاجتهاد في طهارتها عندهما ... (وعفي قدر الدرهم) وزنا في المتجسدة وهو عشرون قيراطا ومساحة في المائعة وهو قدر مقعر الكف داخل مفاصل الأصابع كما وفقه الهندواني وهو الصحيح فذلك عفو (من) النجاسة (المغلظة) فلا يعفى عنها إذا زادت على الدرهم مع القدرة على الإزالة.

وقال عليه في الحاشية:

(قوله: وما ينقض الوضوء بخروجه الخ) يستثنى منه الريح وأما ما لا ينقض كالقىء الذي لم يملأ الفم وما لم يسل من نحو الدم فطاهر على الصحيح وقيل ينجس المائعات دون الجامدات ويستثنى قيء عين الخمر فإنه نجس ولو كان قليلا.

(قوله: وعفي قدر الدرهم) أي عفا الشارع عن ذلك والمراد عفا عن الفساد به وإلا فكراهة التحريم باقية إجماعا إن بلغت الدرهم وتنزيها إن لم تبلغ."

(كتاب الطهارة، ‌‌باب الأنجاس والطهارة عنها، ص: ١٥٥، ط: دارالكتب العلمية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"‌وهو ‌نجس ‌مغلظ، ولو من صبي ساعة ارتضاعه، هو الصحيح لمخالطة النجاسة، ذكره الحلبي."

(كتاب الطهارة، ١/ ١٣٨، ط: سعيد)

وفيه أيضاً:

"(وعفا) الشارع (عن قدر درهم) وإن كره تحريما، فيجب غسله، وما دونه تنزيها فيسن، وفوقه مبطل ... (وهو مثقال) عشرون قيراطا (في) نجس (كثيف) له جرم (وعرض مقعر الكف) وهو داخل مفاصل أصابع اليد (في رقيق من مغلظة كعذرة) آدمي، وكذا كل ما خرج منه موجبا لوضوء أو غسل مغلظ."

(كتاب الطهارة، ‌‌باب الأنجاس، ١ / ١٣٦، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506102727

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں