بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

الٹی / قے ہو جانے سے روزہ کا حکم


سوال

کیا اُلٹی یعنی قے ہوجانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ الٹی سے بعض صورتوں میں روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور بعض صورتوں میں نہیں ٹوٹتا، ذیل میں  تمام صورتیں مع احکام ذکر کی جارہی ہیں :

1: روزے کے دوران بغیر اختیار اور  ارادے  کے خود بخود الٹی ہوجاۓتو روزہ فاسد نہیں ہوگا،چاہے الٹی تھوڑی ہوئی ہو یا زیادہ، دونوں صورتوں میں روزہ نہیں ٹوٹے گا۔

2: کسی نے  اپنے اختیار  اور ارادے سے جان بوجھ کر الٹی کی اور الٹی منہ بھر کر ہوئی تو روزہ ٹوٹ جاۓ گا،اور اگر الٹی منہ  بھر کر نہیں ہوئی ہو  تو روزہ نہیں ٹوٹے گا۔

3: بغیر اختیار کےمنہ بھر کر الٹی ہوئی  اور ساری قے یا اس میں سے چنے کی مقدار کے برابر  یا اس سے زائد کو روزہ یاد ہوتے ہوئے  جان بوجھ کر اپنے اختیار سے واپس لوٹالیا تو اس سے روزہ ٹوٹ جاۓ گا۔

4: بغیر اختیار اور ارادے کے ہی واپس حلق میں چلی جاۓ تو روزہ نہیں ٹوٹے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(‌وإن ‌ذرعه ‌القيء وخرج) ولم يعد (لا يفطر مطلقا) ملأ أو لا".

"(وإن استقاء) أي طلب القيء (عامدا) أي متذكرا لصوم (إن كان ملء الفم فسد بالإجماع)".

"(‌وإن ‌ذرعه ‌القيء وخرج) ........... (فإن عاد) بلا صنعه (و) لو (هو ملء الفم مع تذكره للصوم لا يفسد) خلافا للثاني-(قوله: لا يفسد) أي عند محمد وهو الصحيح".

"(وإن أعاده) أو قدر حمصة منه فأكثر حدادي (أفطر إجماعا) ولا كفارة (إن ملأ الفم وإلا لا) هو المختار".

(كتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده، ج:2، ص:414، ط:سعید)

وفیہ أیضاً:

"[تنبيه] لو استقاء مرارا في مجلس ملء فمه أفطر لا إن كان في مجالس أو غدوة ثم نصف النهار ثم عشية كذا في الخزانة؛ وتقدم في الطهارة أن محمدا يعتبر اتحاد السبب لا المجلس لكن لا يتأتى هذا على قوله هنا خلافًا لما في البحر؛ لأنه يفطر عنده بما دون ملء الفم فما في الخزانة على قول أبي يوسف أفاده في النهر."

(كتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده، ج:2، ص:415، ط:سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"فالحاصل أن صور المسائل اثنا عشر..................................................وأن صومه لا يفسد على الأصح في الجميع إلا في مسألتين في الإعادة ‌بشرط ملء الفم، وفي الاستقاء ‌بشرط ملء".

(کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، ج:2، ص:479-480، ط:العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144509100204

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں