بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

علوم عصریہ کا شرعی حکم


سوال

ایک مفتی  صاحب نے ایک جگہ فرمایا کہ عصری علوم فرض کفایہ ہیں۔یعنی عقائد و عبادات کے علوم فرض عین، جبکہ فزکس کیمسٹری بیالوجی اور میڈیکل کے علوم فرض کفایہ ہے۔ برائے کرم اس بارے رہنمائی فرمائیں  کہ واقعی اسلامی معاشرے میں افراد پر عصری علوم حاصل کرنا ضروری ہے؟

جواب

فرضِ عین  ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے جیسا کہ اسلام کے عقائدِ صحیحہ کا علم حاصل کرے ،غرض جو کام شریعت نے ہر انسان کے ذمہ فرض و واجب کیے ہیں ان کے اَحکام و مسائل کا علم حاصل کرنا بھی ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے ۔

فرض کفایہ سے مراد وہ فرض ہےجس کو کچھ مسلمان ادا کرلیں تو سب مسلمانوں کے ذمے  سے فرض ساقط ہوجائےگا، اور اگر  کوئی بھی ادا  نہ کرے  تو سب مسلمان گناہ گار ہوں،  جیسے غسل میت، اور نماز جنازہ۔

اور علم میں سے فرض کفایہ وہ علم ہے جس سے امور دنیا کے قوام میں استغنا نہیں ہوتا جیسے علم طب ، حساب نحو ، لغت، کلام، قرآت، اسانید، الحدیث، قسمتة الوصایا، مواریث، کتابت ، معانی، بدیع، بیان، اصول، معرفۃ الناسخ والمنسوخ ، عام، خاص، بنص ظاہر ، یہ تمام علوم علم تفسیر اور حدیث کے لیے آلہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح علم الاثار والاخبار علم الرجال اور ان کے اسماء صحابہ کے اسماء اور ان کی صفات ، روایت میں عدالت کا علم اور راویوں کے احوال کا علم تا کہ قوی سے ضعیف کی تمیز کر سکے ، راویوں کی اعمار کا علم ، اصول صنعت اور زراعت جیسے کپڑے تیار کرنا ، سیاست اور حجامت وغیرہ ان سب کا حکم فرض کفایہ کا ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں وہ عصری علوم فرض کفایہ ہیں ،جس سے ایسے امورجن کی ضرورت سے لوگ مستغنی نہیں  ہے،البتہ ہر شخص پر ضروری بھی   نہیں ہیں،کچھ لوگوں کے  سیکھنے سے باقیوں کے ذمہ سے ساقط ہو جاتا ہے۔

لہذا سوال میں جس  مفتی صاحب کی بات نقل کی گئی ہے،  وہ  غلط نہیں ہے۔

الدرالمحتار شرح تنویر الابصار میں ہے:

"واعلم أن تعلم العلم يكون فرض عين، وهو بقدر ما يحتاج لدينه."

"وفرض كفاية، وهو ما زاد عليه لنفع غيره."

(مقدمه، ج:1، ص:12، ط:دار الفكر- بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(فرض كفاية إلخ) عرفه في شرح التحرير بالمتحتم المقصود حصوله من غير نظر بالذات إلى فاعله. قال: فيتناول ما هو ديني كصلاة الجنازة، ودنيوي كالصنائع المحتاج إليها."

"وأما فرض الكفاية من العلم، فهو كل علم لا يستغنى عنه في قوام أمور الدنيا كالطب والحساب والنحو واللغة والكلام والقراءات وأسانيد الحديث وقسمة الوصايا والمواريث والكتابة والمعاني والبديع والبيان والأصول ومعرفة الناسخ والمنسوخ والعام والخاص والنص والظاهر وكل هذه آلة لعلم التفسير والحديث، وكذا علم الآثار والأخبار والعلم بالرجال وأساميهم وأسامي الصحابة وصفاتهم، والعلم بالعدالة في الرواية، والعلم بأحوالهم لتمييز الضعيف من القوي، والعلم بأعمارهم وأصول الصناعات والفلاحة كالحياكة والسياسة والحجامة."

(مقدمہ،ج:1،ص،42،ط:سعید)

الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے:

"(فرض العين) ، وهوما طلب الشارع حصوله من كل فرد من الأفراد المكلفين به  مثل الصلاة والصيام وغير ذلك، وإذا قام به البعض لا يسقط الإثم عن الباقين."

"( فرض الكفاية)،و هو أمر مهم كلي تتعلق به مصالح دينية ودنيوية لا ينتظم الأمر إلابحصولها، قصد الشارع حصولها من مجموع المكلفين لا من جميعهم، وليس من شخص معين، فإذا قام به من فيه كفاية سقط الحرج عن الباقين."

(فرض الكفاية، ج:35، ص:7، ط:دارالسلاسل-الكويت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100539

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں