بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ULOAN سروس اوراس کا حکم


سوال

آپ کا یوفون کی لون سروس کے فتویٰ کے بعد کچھ لوگوں کو یہ اعتراض ہے کہ یہ تو سروس جارجز ہیں نہ کہ سودhellip مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ برائے مہربانی یہ وضاحت کے ساتھ تو بتادیں کہ یہ کس طرح سود ہے؟برائے مہربانی مفاد عامہ کے متعلق مدلل جواب دیں کیوں کہ یہ مسئلہ دلچسپ ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا وکیپیڈیا کی ویب سائٹ میں بھی اسلامک بینکنگ کے موضوع کے تحت لکھا ہے کہ اسلامک مار کیج کے عقد میں بجائے یہ کہ بینک مشتری کو قرض دے کہ کوئی چیز خرید لے بینک بذات خود وہ چیز خرید لیتا ہے اور مشتری کو کچھ منافع کے ساتھ قسط وار فروخت کر لیتا ہے مذکورہ ویب سائٹ میں دیگر بہت سی صورتیں بھی موجود ہیں۔اب فرض کریں کہ ٹیلی نار نے ۱۵ روپے کا ائر ٹائم آپ کے لئے خریدا اور آپ اس کو اپنے ہاتھوں ساٹھ پیسوں کے عوض فروخت کر لیتا ہے بغیر وقت کی تعین کیے تو یہ کس طرح سود ہے؟جو اس کو سود قرار دیتے ہیں ان سے درخواست کرتا ہوں کہ دلیل پیش کریں اور یہ بھی واضح کریں کہ نفع سے کوئی چیز فروخت کر نا اگر سود ہے تو اسلامک بینکنگ سود کیوں نہیں ہے۔

جواب

کمپنی خود صارف کو ائیر ٹائم فروخت کرے یا کسی سے خرید کر صارف کو فروخت کرے بہر دو صورت صارف کمپنی کا پندرہ روپے کا مدیون مقروض ،صارف کے ذمے واجب الادا ہو جاتا ہے جبکہ مقروض سے قرضے کی مقدار سے زائد وصولی سود کہلاتی ہے۔ اس لیے کمپنی جو زائد ساٹھ پیسے کاٹتی ہے وہ سود ہے البتہ اگر کمپنی پندرہ روپے لون دے کر اوپر ساٹھ پیسے وصول نہ کرے بلکہ شروع ہی سے پندرہ روپے ساٹھ پیسے کا پیکج رکھے صارف کو پندرہ روپے کے بقدر خدمت وسہولت فراہم کرے اور پندرہ روپے ساٹھ پیسے اس کے عوض وصول کرے تو جائز ہو گا۔ جیسا کہ پندرہ روپے کی چیز خرید کر پندرہ روپے ساٹھ پیسے پر فرخت کرنا جائزہے مگر پندرہ روپے کی فروخت کرکے پندرہ روپے خریدار کے ذمہ لازم ہونے کے بعد پندرہ روپے کے بجائے پندرہ روپے ساٹھ پیسے وصول کرنا جائز نہیں ہوگا۔ اس تفصیل سے دونوں صورتوں کا فرق بھی واضح ہو گیا۔ پہلی صورت میں واجب الاداء رقم سے زائد کی وصولی ہے جبکہ دوسری صورت میں حسب معاہدہ واعلان اجرت کی وصولی ہے۔ جواز کی ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ کمپنی ساٹھ پیسے 456پر میسج بھیجنے کی اجرت وصول کرلے اور اتنی اجرت وصول کرے جتنی عام طور پر ایک میسج کی وصول کرتی ہے ۔پندرہ روپے قرض دینے کی بناء پر زیادہ وصول نہ کرے ۔نیز صارف کے سامنے وضاحت بھی کردے کہ ساٹھ پیسے لون خدمات منگوانے کے لئے بھیجے گئے مسیج کے بدلے میں کاٹے گئے ہیں۔


فتوی نمبر : 143101200158

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں