بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 شوال 1445ھ 17 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

علماء کو گالی دینے کا حکم


سوال

علماءِ کرام کو برا بھلا کہنا کیسا اور گالی دینا کیسا ہے؟ اس بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟

جواب

کسی عام مسلمان کو بھی  گالی دینا، از روئے حدیث سببِ فسق ہے،  جس سے اجتناب لازم ہے، اور حدیث شریف کے مطابق انسان کو جہنم کی آگ میں اوندھے منہ ڈالنے کا بڑا سبب زبان ہے، ایک حدیث میں ہے کہ جو دو چیزوں کی مجھے ضمانت دے دے میں اسے جنت کی ضمانت دیتاہوں، ان دو میں سے ایک زبان ہے۔

ریاض الصالحین للنووی میں ہے:

"وعنِ ابنِ مَسعودٍ قَالَ: قَالَ رسُولُ اللَّه ﷺ: سِباب المُسْلِمِ فُسوقٌ، وقِتَالُهُ كُفْرٌ متفقٌ عَلَيهِ". ( رياض الصالحين للنووي، باب تحريم سَبّ المسلم بغير حق)

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مسلمان کو گالی دینا فسق ہے، اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔

"وعنْ أَبي هُرَيرةَ أنَّ رسُولَ اللَّه ﷺ قالَ: المُتَسابانِ مَا قَالا، فَعَلى البَادِي مِنْهُما حتَّى يَعْتَدِي المظلُومُ. رواه مسلم". ( رياض الصالحين للنووي، باب تحريم سَبّ المسلم بغير حق)

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : ایک دوسرے کو گالی دینے والے جو کچھ کہتے ہیں، تو وہ ان میں سے پہل کرنے والے کے سر ہے، یہاں تک کہ مظلوم زیادتی کرجائے۔ ( یعنی پھر وہ بھی اس گناہ میں شریک قرار پائے گا) .

علماءِ کرام کو بغیر کسی سبب ظاہری کے برا بھلا کہنا یا گالی دینا ناجائز ہے، فقہاءِ کرام نے ایسے شخص کے بارے میں بھی کفر کا اندیشہ ظاہر کیا ہے جو  کسی ظاہری سبب کے بغیر دل میں علماءِ کرام کا بغض رکھتاہو، لہذا اپنے اس عمل پر سچے دل سے توبہ و استغفار  لازم ہے، اور آئندہ علماءِ کرام سے بدگمان ہونے سے اجتناب کرنے کے  لیے اچھوں کی صحبت اختیار کی جائے۔

مجمع الأنهر في شرح ملتقي الأبحر  میں ہے:

"وَفِي الْبَزَّازِيَّةِ: فَالِاسْتِخْفَافُ بِالْعُلَمَاءِ؛ لِكَوْنِهِمْ عُلَمَاءَ اسْتِخْفَافٌ بِالْعِلْمِ، وَالْعِلْمُ صِفَةُ اللَّهِ تَعَالَى مَنَحَهُ فَضْلًا عَلَى خِيَارِ عِبَادِهِ لِيَدُلُّوا خَلْقَهُ عَلَى شَرِيعَتِهِ نِيَابَةً عَنْ رُسُلِهِ، فَاسْتِخْفَافُهُ بِهَذَا يُعْلَمُ أَنَّهُ إلَى مَنْ يَعُودُ، فَإِنْ افْتَخَرَ سُلْطَانٌ عَادِلٌ بِأَنَّهُ ظِلُّ اللَّهِ تَعَالَى عَلَى خَلْقِهِ، يَقُولُ الْعُلَمَاءُ بِلُطْفٍ اللَّهُ اتَّصَفْنَا بِصِفَتِهِ بِنَفْسِ الْعِلْمِ، فَكَيْفَ إذَا اقْتَرَنَ بِهِ الْعَمَلُ الْمُلْكُ عَلَيْك لَوْلَا عَدْلُك فَأَيْنَ الْمُتَّصِفُ بِصِفَتِهِ مِنْ الَّذِينَ إذَا عَدَلُوا لَمْ يَعْدِلُوا عَنْ ظِلِّهِ، وَالِاسْتِخْفَافُ بِالْأَشْرَافِ وَالْعُلَمَاءِ كُفْرٌ. وَمَنْ قَالَ لِلْعَالِمِ عُوَيْلِمٌ أَوْ لِعَلَوِيٍّ عُلَيْوِيٌّ قَاصِدًا بِهِ الِاسْتِخْفَافَ كَفَرَ.

وَمَنْ أَهَانَ الشَّرِيعَةَ أَوْ الْمَسَائِلَ الَّتِي لَا بُدَّ مِنْهَا كَفَرَ، وَمَنْ بَغَضَ عَالِمًا مِنْ غَيْرِ سَبَبٍ ظَاهِرٍ خِيفَ عَلَيْهِ الْكُفْرُ، وَلَوْ شَتَمَ فَمَ عَالِمٍ فَقِيهٍ أَوْ عَلَوِيٍّ يُكَفَّرُ، وَتَطْلُقُ امْرَأَتُهُ ثَلَاثًا إجْمَاعًا كَمَا فِي مَجْمُوعَةِ الْمُؤَيَّدِيِّ نَقْلًا عَنْ الْحَاوِي، لَكِنَّ فِي عَامَّةِ الْمُعْتَبَرَاتِ أَنَّ هَذِهِ الْفُرْقَةَ فُرْقَةٌ بِغَيْرِ طَلَاقٍ عِنْدَ الشَّيْخَيْنِ فَكَيْفَ الثَّلَاثُ بِالْإِجْمَاعِ، تَدَبَّرْ". (كتاب السير، بَابُ الْمُرْتَدِّ، أَلْفَاظَ الْكُفْرِ أَنْوَاع، الرَّابِعُ فِي الِاسْتِخْفَافِ بِالْعِلْمِ، ١ / ٦٩٥، ط: دار احياء التراث). فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144108200159

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں