بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

علماء کی زیارت مستحب ہے


سوال

کیا علماءِکرام کی زیارت کا اجر و ثواب ہے ؟کیا یہ حدیثِ پاک میں  مذکور ہے ؟

جواب

دینِ اسلام میں  اہلِ حق علماءِ کرام   کا بہت بڑا مرتبہ ہے؛  اس لیے کہ ہر مسلمان پر عبادات کے علاوہ، جن معاملات اور معاشرت سے اس کا زندگی بھر واسطہ پڑتا ہے، اس کا علم سیکھنا فرض ہے، اور  یہ فریضہ علماء سے پوچھ  پوچھ کر ہی ایک عام مسلمان ادا کرسکتا ہے۔ نیز اگر کسی علاقے  کے مسلمانوں کی دینی رہنمائی کے لیے کوئی عالم نہ ہو تو وہ علاقے والے گناہ گار ہوں گے؛ کیوں کہ دینی رہنمائی کرنے والے علماء کا ہونا فرضِ کفایہ ہے !

امام نووی رحمہ اللہ نے صحیح مسلم کی درج ذیل حدیث  سے حاصل شدہ فوائد میں علماء و فضلاء کی زیارت کا پسندیدہ ہونا بھی ذکر کیا ہے، صحیح مسلم کی روایت اور امام نووی رحمہ اللہ کی عبارت درج ذیل ہے: 

صحيح مسلم (1 / 61):

" عن أنس بن مالك، قال: حدثني محمود بن الربيع، عن عتبان بن مالك، قال: قدمت المدينة، فلقيت عتبان، فقلت: حديث بلغني عنك، قال: أصابني في بصري بعض الشيء، فبعثت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم أني أحب أن تأتيني فتصلي في منزلي، فأتخذه مصلى، قال: فأتى النبي صلى الله عليه وسلم، ومن شاء الله من أصحابه، فدخل وهو يصلي في منزلي وأصحابه يتحدثون بينهم، ثم أسندوا عظم ذلك وكبره إلى مالك بن دخشم، قالوا: ودوا أنه دعا عليه فهلك، ودوا أنه أصابه شر، فقضى رسول الله صلى الله عليه وسلم الصلاة، وقال: «أليس يشهد أن لا إله إلا الله، وأني رسول الله؟» ، قالوا: إنه يقول ذلك، وما هو في قلبه، قال: «لا يشهد أحد أن لا إله إلا الله، وأني رسول الله، فيدخل النار، أو تطعمه» ، قال أنس: فأعجبني هذا الحديث، فقلت لابني: اكتبه فكتبه."

 ترجمہ : حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میری آنکھوں میں کچھ خرابی ہوگئی تھی؛ اس لیے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ میری یہ خواہش ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے گھر میں تشریف لا کر نماز پڑھیں؛ تاکہ میں اس جگہ کو اپنے نماز پڑھنے کی جگہ بنالوں؛ کیوں کہ میں مسجد میں حاضری سے معذور ہوں،  پس آپ ﷺ اپنے ساتھیوں کے ساتھ تشریف لائے اور گھر میں داخل ہو کر نماز پڑھنے لگے،  مگر صحابہ کرام  رضی اللہ تعالی عنہم آپس میں گفتگو میں مشغول رہے،  دورانِ گفتگو مالک بن دخشم کا تذکرہ آیا، لوگوں نے اس کو مغرور اور متکبر کہا( کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کی خبر سن کر بھی حاضر نہیں ہوا معلوم ہوا وہ منافق ہے)، صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے کہا کہ ہم دل سے چاہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے  لیے بددعا کریں کہ وہ ہلاک ہو جائے یا کسی مصیبت میں گرفتار ہو جائے،  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کیا وہ اللہ تعالیٰ کی معبودیت اور میری رسالت کی گواہی نہیں دیتا؟!  صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا:  زبان سے تو وہ اس کا قائل ہے، مگر اس کے دل میں یہ بات نہیں،  فرمایا:  جو شخص اللہ تعالیٰ کی تو حید اور میری رسالت کی گواہی دے گا وہ دوزخ میں داخل نہیں ہوگا، یا یہ فرمایا کہ اس کو آگ نہ کھائے گی۔  حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ حدیث مجھے بہت اچھی لگی،  میں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ اس کو لکھ لو تو انہوں نے اس حدیث کو لکھ لیا۔

شرح النووي على مسلم (1 / 244):

"وفي هذا الحديث أنواع من العلم تقدم كثير منها، ففيه التبرك بآثار الصالحين و فيه زيارة العلماء و الفضلاء و الكبراء أتباعهم و تبريكهم إياهم."

اسی طرح ملا علی قاری رحمہ اللہ نے علماء کی زیارت کو زندگی کے مقاصد میں شمار کیا ہے، جب کہ امام غزالی رحمہ اللہ نے علماء کی زیارت کے سفر کو مستحب اسفار میں شمار کیا ہے۔

البتہ علماءِ کرام کی زیارت  کے متعلق  لوگوں میں حدیث مشہور ہے کہ جس نے علماء کی زیارت کی گویا کہ اس نے نبی کریم ﷺ  کی زیارت کی۔ مذکورہ حدیث  سنداً درست نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 42):

"وأما فرض الكفاية من العلم، فهو كل علم لا يستغنى عنه في قوام أمور الدنيا كالطب والحساب والنحو واللغة والكلام والقراءات وأسانيد الحديث وقسمة الوصايا والمواريث والكتابة والمعاني والبديع والبيان والأصول ومعرفة الناسخ والمنسوخ والعام والخاص والنص والظاهر وكل هذه آلة لعلم التفسير والحديث، وكذا علم الآثار والأخبار والعلم بالرجال وأساميهم وأسامي الصحابة وصفاتهم، والعلم بالعدالة في الرواية، والعلم بأحوالهم لتمييز الضعيف من القوي، والعلم بأعمارهم وأصول الصناعات والفلاحة كالحياكة والسياسة والحجامة. اهـ."

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (2 / 589):

"(«كنت نهيتكم عن زيارة القبور ألا فزوروها» ) . والحديث إنما ورد نهيا عن الشد لغير الثلاثة من المساجد لتماثلها، بل لا بلد إلا وفيها مسجد، فلا معنى للرحلة إلى مسجد آخر، وأما المشاهد فلا تساوي بل بركة زيارتها على قدر درجاتهم عند الله، ثم ليت شعري هل يمنع هذا القائل من شد الرحل لقبور الأنبياء كإبراهيم وموسى ويحيى، والمنع من ذلك في غاية الإحالة، وإذا جوز ذلك لقبور الأنبياء والأولياء في معناهم، فلا يبعد أن يكون ذلك من أغراض الرحلة، كما أن زيارة العلماء في الحياة من المقاصد."

إحياء علوم الدين (2 / 249):

"والمحمود ينقسم الى واجب كالحج وطلب العلم الذي هو فريضة على كل مسلم والى مندوب اليه كزيارة العلماء وزيارة مشاهدهم."

كشف الخفاء ت هنداوي (2 / 300):

من زار العلماء؛ فكأنما زارني، ومن صافح العلماء؛ فكأنما صافحني، ومن جالس العلماء؛ فكأنما جالسني، ومن جالسني في الدنيا؛ أجلس إلي يوم القيامة.قال في الذيل: في إسناده حفص؛ كذاب."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209201796

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں