بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

علماء دین کی توہین کا حکم


سوال

 آج کل علماء دین پر لطیفے بنائے جارہے ہیں جس میں ان کی توہین جھلکتی ہے. توہینِ علماء کے متعلق رہنمائی فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔

جواب

علماء دین پر توہین آمیز لطائف اس لئے بنانا کہ وہ حاملین علم دین ہیں سخت گناہ ہے اور ایسے شخص کا ایمان خطرے میں ہے،اس کو چاہیے کہ  اپنے اس فعل پر توبہ و استغفار کرے اور اپنے ایمان کی تجدید کرے۔

 البحر الرائق میں ہے:

" ومن أبغض عالماً من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر، ولو صغر الفقيه أو العلوي قاصداً الاستخفاف بالدين كفر، لا إن لم يقصده".

(کتاب السیر، باب احکام المرتدین ج نمبر ۵ ص نمبر ۱۳۴،دار الکتاب الاسلامی )

مجمع الانھر میں ہے:

"وفي البزازية: فالاستخفاف بالعلماء؛ لكونهم علماء استخفاف بالعلم، والعلم صفة الله تعالى منحه فضلاً على خيار عباده ليدلوا خلقه على شريعته نيابةً عن رسله، فاستخفافه بهذا يعلم أنه إلى من يعود، فإن افتخر سلطان عادل بأنه ظل الله تعالى على خلقه يقول العلماء بلطف الله اتصفنا بصفته بنفس العلم، فكيف إذا اقترن به العمل الملك عليك لولا عدلك، فأين المتصف بصفته من الذين إذا عدلوا لم يعدلوا عن ظله! والاستخفاف بالأشراف والعلماء كفر. ومن قال للعالم: عويلم أو لعلوي عليوي قاصداً به الاستخفاف كفر. ومن أهان الشريعة أو المسائل التي لا بد منها كفر، ومن بغض عالماً من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر، ولو شتم فم عالم فقيه أو علوي يكفر وتطلق امرأته ثلاثاً إجماعاً."

(کتاب السیر باب المرتد ج نمبر ۱ ص نمبر ۶۹۵،دار احیاء التراث العربی)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"عالم دین ہونے  کی وجہ سے ان کو برا کہنا، گستاخی کرنا نہایت خطرناک ہے، سخت قسم کا جرم ہے۔ اگر کوئی بد معاملگی ہوئی یا ذاتی نفسانی دشمنی سے یا کسی عالم دین کو گمراہی اور فسق و فجور میں مبتلاء دیکھا اس کی وجہ سے اس کو برا کہتا ہے تو اس کا یہ حکم نہیں اگرچہ برا  کسی کو بھی نہیں کہنا چاہیے، سخت سے سخت گناہ گار کو بھی برا کہنے سے کیا فائدہ ؟ اس کی اصلاح نصیحت، خیرا خواہی سے کی جائے تو فائدہ بھی ہو۔"

(کتاب الایمان و العقائد ، ما یتعلق بالاستخفاف باللہ  تعالی و شعائرہ ج نمبر ۲ ص نمبر ۵۲۹،جامعہ فارقیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100346

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں