میرے پاس موٹر سائیکل ہے میں نے وہ زید کو یہ کہتے ہوئے دے دی کہ یہ موٹر سائیکل تم بیچ دو پچاس ہزار سے زائد آپ کے اور پچاس ہزار میرے ہوں گے تو زید نے اگر یہ موٹر سائیکل بیچ دی 52ہزار کی تو کیا زید کے لیے دوہزار لینا اور میرے لیے اپنے پچاس ہزار لینا جائز ہوگا؟
صورتِ مسئولہ میں آپ نے زید کے ساتھ جو عقد کیا ہے وہ عقد فاسد ہے؛ اس لیے کہ آپ نے زید کی جو اجرت طے کی ہے وہ متعین نہیں ہے، اور اجارہ کے عقد میں اجرت کا متعین ہونا ضروری ہے۔ اس صورت میں اگر وہ موٹر سائیکل 52 ہزار کی بیچ چکا ہے اور اور اپنا کام پورا کر چکا ہے ،تو اس کام پر مارکیٹ میں جتنے پیسے اس کو دیے جاتے ہیں ،اتنے ہی پیسے آپ پر اس کو دینا لازم ہے ۔ یہ رقم مارکیٹ کے اعتبار سے دو ہزار سے زیادہ اور کم بھی ہو سکتی ہے۔ حدیث شریف میں ہے:
’’عن أبي سعید الخدري -رضي اﷲ عنه - أن رسول اﷲ ﷺ نهى عن استئجار الأجیر حتی یبین له أجره‘‘.
(مراسیل أبي داؤد/ ۱۰)
’’ومن شرائط الإجارة ... ومنها: أن تکون الأجرة معلومةً‘‘.
(الفتاوى الهندية، کتاب الإجارة، الباب الأول)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144211200595
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن