بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 جمادى الاخرى 1446ھ 13 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

اجرت کے عوض غیر شرعی کتابوں کا ترجمہ کرنے کا حکم


سوال

غيرمذہبی کتابوں کا ترجمہ کرنا مال کے عوض،  مسلمان آدمی کے لیے از روئے شریعت کیسا ہے ؟

جواب

غیر مذہبی یعنی ایسی کتابیں جن  میں خلافِ شریعت مواد موجود ہو ان کتابوں کا ترجمہ کرنا؛ تاکہ مختلف زبان کے لوگ ان کو پڑھ سکیں جائز نہیں ہے، اور گناہ کے کام پر اجرت لینا بھی جائز نہیں ہے، نیز ایسی کتابوں کا ترجمہ کرنے کی صورت میں جتنے لوگ ان کتابوں کا ترجمہ پڑھ کر گم راہ ہوں گے ان سب کی گم راہی کے وبال اور گناہ میں  یہ ترجمہ کرنے والا شخص بھی شریک ہوگا۔ البتہ اگر کوئی شخص کسی باطل فرقے یا شخص کے باطل عقائد لوگوں کے سامنے ظاہر اور ثابت کرنے کے  لیے اس کی کتابوں کا ترجمہ کر کے لوگوں کو اس کے باطل عقائد سے باخبر اور ہوشیار کرے تو اس کی گنجائش ہے۔

الموسوعة الفقهية میں ہے:

"وَلاَيَجُوزُ اسْتِئْجَارُ كَاتِبٍ لِيَكْتُبَ لَهُ غِنَاءً وَنَوْحًا؛ لأَِنَّهُ انْتِفَاعٌ بِمُحَرَّمٍ." 

(الإِْجَارَةُ عَلَى الْمَعَاصِي وَالطَّاعَاتِ، ج:1، ص:290، ط:اميرحمزه كتب خانه)

الفقہ الاسلامی میں ہے:

"ولایجوز الاستئجار علی المعاصي کاستئجار الإنسان للعب و اللهو المحرم ... لأنه استئجار علی المعصیة والمعصیة لاتستحق بالعقد." 

(شروط صحة الإجارة، ج:5، ص:3817، ط:دارالفكر)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144201201343

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں