بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اجرت دے کر اعتکاف میں بٹھانے کا حکم


سوال

کیا کسی شخص کو اجرت دے کر اعتکاف میں بٹھانا جائز ہے؟

جواب

اجرت دے کر کسی کو مسجد  میں اعتکاف میں بٹھانا جائز نہیں ہے؛  کیوں کہ  اعتکاف عبادت ہے اور عبادت کے لیے اجرت دینا اور لینا دونوں ناجائز ہیں،  ہاں اگر اجرت دینے کی بات کیے بغیر اعتکاف میں بٹھایا اور وہاں اعتکاف میں بٹھا کر اجرت دینا معروف ومشہور بھی نہ ہو  تو  معتکف کی خدمت میں کچھ پیش کرنا جائز ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: لتعينه عليه) ... و لايجوز أخذ الأجرة على الطاعة كالمعصية، و فيه أن أخذ الأجرة على الطاعة لايجوز مطلقّا عند المتقدمين، و أجاز المتأخرون على تعليم القرآن و الأذان و الإمامة."

(کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ج:2، ص:199، ط:سعید)

العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ میں ہے:

"‌الأصل ‌أن ‌كل ‌طاعة يختص بها المسلم لا يجوز الاستئجار عليها عندنا لقوله عليه الصلاة والسلام «اقرءوا القرآن ولا تأكلوا به» إلخ فالاستئجار على الطاعات مطلقا لا يصح عند أئمتنا الثلاثة أبي حنيفة وأبي يوسف ومحمد."

(کتاب الاجارۃ،ج:2،ص:127،ط:دار المعرفة)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"في الأصل لا يجوز الاستئجار على الطاعات كتعليم القرآن والفقه والأذان والتذكير والتدريس والحج والعمرة ولا يجب الأجر. كذا في الخلاصة."

(الباب السادس عشر في مسائل الشيوع في الإجارة،ج:4،ص:448،ط:دارالفکر بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509102120

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں