اگر وارث کی اجازت سے ایک عورت کی نماز جنازہ ایک جگہ ادا کی جائے تو کیا وہی وارث دوسری جگہ نماز جنازہ ادا کر سکیں گے؟
واضح رہے کہ اگر میت کے اولیاء نے نماز جنازہ پڑھ لی یا ان کی اجازت سےنماز جنازہ پڑھائی گئی تو نمازِ جنازہ ادا ہو گئی اور فر ضِ کفایہ ادا ہوگیا۔ دوبارہ جنازہ ادا کرنا درست نہیں ؛ اس لیے کہ نماز جنازہ میں اصل یہ ہے کہ ایک مرتبہ ہی پڑھی جائے ،ایک سے زیادہ مرتبہ پڑھنا اصلًا مشروع نہیں ،لیکن اگر میت کے ولی نے نمازِ جنازہ نہیں پڑھی اور نہ ہی اس کی اجازت سے پڑھی گئی، بلکہ ایسے لوگوں نے پڑھی جن کو اس میت پر ولایت کا حق نہیں تو ولی اس کی نمازِجنازہ پڑھ سکتا ہے، لیکن اس دوسری جماعت میں صرف وہ لوگ شریک ہوں گے جو پہلی میں شریک نہیں تھے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر پہلی مرتبہ نماز جنازہ میں میت کا ولی شریک تھا یا ولی کی اجازت سے نماز جنازہ ادا کی گئی تھی تو دوبارہ نماز جنازہ پڑھنا درست نہیں تھا، خواہ پہلی مرتبہ تمام اولیاء شریک نہ ہوئے ہوں۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"و لو صلّى علیه الولي، و للمیت أولیاء أخر بمنزلته، لیس لهم أن یعیدوا، کذا في الجوهرة النیرة."
(کتاب الصلاة، الباب الحادي و العشرون في الجنائز، الفصل الخامس في الصلاة على المیت،ج:1، ص: 164، ط: رشیدیه کوئٹه)
فتاوی شامی میں ہے:
"فإن صلی غیره أي غیر الولي ممن لیس له حق التقدم علی الولي و لم یتابعه الولي أعاد الولي ولو علی قبره".
( باب صلاة الجنائز،ج:2، ص:222، ط: سعید)
مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح میں ہے :
"ولمن له حق التقدم أن يأذن لغيره فإن صلى غيره أعادها إن شاء ولا يعيد معه من صلى مع غيره.
ولمن له حتى التقدم أن يأذن لغيره" لأن له إبطال حقه وإن تعدد فللثاني المنع والذي يقدمه الأكبر أولى من الذي يقدمه الأصغر "فإن صلى غيره" أي غير من له حق التقدم بلا إذن ولم يقتد به "أعادها" هو "إن شاء" لعدم سقوط حقه وإن تأدى الفرض بها "ولا" يعيد "معه" أي مع من له حق التقدم "من صلى مع غيره" لأن التنفل بها غير مشروع كما لا يصلي أحد عليها بعده وإن صلى وحده."
( فصل الصلاة عليه ، ص: 220، ط: المكتبة العصرية)
حاشية الطحطاوی میں ہے :
"أما إذا أذن له أو لم يأذن ولكن صلى خلفه فليس له أن يعيد لأنه سقط حقه بالأذن أو بالصلاة مرة وهي لا تتكرر ولو صلى عليه الولي وللميت أولياء آخرون بمنزلته ليس لهم أن يعيدوا لأن ولاية الذي صلى متكاملة."
(فصل السلطان احق بصلاته،ص: 591، ط: دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609100823
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن