بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ادھار تجارتی سامان میں زکات کا حکم


سوال

ایک شخص کا مچھلی کے جالے بنانے کا بڑا کاروبار ہے، جالے بنا کر فروخت کرتا ہے، لیکن یہ جالے بنانے کا سامان تقریباً نو ، دس  لاکھ کا یکبارگی خریدنا پڑتا ہے جس میں اکثر ادھار خریدنا ہوتا ہے، جالے بنوا کر بیچنے کے بعد پوری ادائیگی ہوتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جالے بنا کر بیچنے کا جو سامان ہے یہ سامانِ تجارت میں شامل ہے یا نہیں ؟کیا اس کی زکات ادا کرنا ہوگی یا جالے بیچ کر جو قیمت وصول ہوتی ہے اس پر زکات ہوگی؟

جواب

واضح رہے کہ زکات کے حساب میں قرض لی ہوئی رقم جس کی ادائیگی ذمہ میں واجب ہوتی ہے  دیگر قابلِ زکات اموال سے منہا ہوتی ہے، یعنی مثلاً اگر کوئی شخص اپنی ملکیت کے تمام  قابلِ زکات اثاثوں کے ساتھ  تمام تجارتی مال کے قابلِ فروخت   سامان کا جائزہ لے کر مارکیٹ میں  قیمتِ فروخت کے حساب سے اس کی مالیت کی تعیین کرے ،  اور اس میں سے اپنے اوپر واجب الادا اخراجات مثلاً جو ادائیگیاں باقی ہیں یا  دیگر قرض وغیرہ  ہیں ان کو منہاکرے، تو اگر اس کے بعد بھی اس کے پاس اتنی مالیت بچے جو نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی  قیمت)کے بقدر ہو  تو   اس کا چالیسواں حصہ یعنی ڈھائی فیصد  زکات ادا کرنا ہوگا،اگر  قرضہ یا واجب الادا اخراجات اتنے زیادہ ہوں کہ انہیں منہا کرنے کے بعد اتنی رقم نہیں بچے، تو پھر اس پر  زکات لازم نہیں ہوگی۔

لہذا صورتِ  مسئولہ  میں بیچنے کے لیے بنائے گئے مچھلی کے شکار کے  جال   سامانِ تجارت ہے، لہذا ادھار کی رقم نکالنے کے بعد  اگر اس شخص کی ملکیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت  کے بقدر مال یا تجارتی سامان موجود ہے تو   اس پر  زکات لازم  ہوگي ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(ومنها الفراغ عن الدين) قال أصحابنا - رحمهم الله تعالى -: كل دين له مطالب من جهة العباد يمنع وجوب الزكاة سواء كان الدين للعباد كالقرض وثمن البيع وضمان المتلفات وأرش الجراحة، وسواء كان الدين من النقود أو المكيل أو الموزون أو الثياب أو الحيوان وجب بخلع أو صلح عن دم عمد، وهو حال أو مؤجل أو لله - تعالى - كدين الزكاة فإن كانزكاة سائمة يمنع وجوب الزكاة بلا خلاف بين أصحابنا - رحمهم الله تعالى - سواء كان ذلك في العين بأن كان العين قائما أو في الذمة باستهلاك النصاب، وإن كان زكاة الأثمان وزكاة عروض التجارة ففيها خلاف بين أصحابنا فعند أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى - الجواب فيه كالجواب في السوائم."

(كتاب الزكاة،الباب الأول في تفسيرها وصفتها وشرائطها، ١ / ١٧٢ - ١٧٣، ط: دار الفكر)

الجوهرة النيرة  میں ہے:

"(قوله ‌وإن ‌كان ‌ماله ‌أكثر ‌من ‌الدين ‌زكى ‌الفاضل ‌إذا ‌بلغ ‌نصابا) لفراغه عن الحاجة وإن لحقه في وسط الحول دين يستغرق النصاب ثم بريء منه قبل تمام الحول فإنه تجب عليه الزكاة عند أبي يوسف لأنه يجعل الدين بمنزلة نقصان النصاب. وقال محمد لا يجب لأنه يجعل ذلك بمنزلة الاستحقاق وإن كان الدين لا يستغرق النصاب بريء منه قبل تمام الحول فإنه تجب الزكاة عندهم جميعا إلا زفر فإنه يقول لا تجب رجل وهب لرجل ألف درهم فحال عليها الحول عند الموهوب له ثم رجع فيها الواهب فلا زكاة على الموهوب له لأنه استحق عليه عين النصاب."

(كتاب الزكاة،شروط وجوب الزكاة، ١ / ١١٥، ط: المطبعة الخيرية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144309100576

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں