بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ادھار پر مہنگی چیز خریدنا


سوال

میراسوال یہ ہے کہ قسط پر کہیں سے بھی کوئی چیز لو وہ مہنگی پڑتی ہے پھر وہ بھی ناجائز ہونی چاہیے بینک سے لی ہوئی چیز کی طرح ؟ وضاحت فرمائیں !

جواب

واضح رہے کہ کسی چیز کو نقد میں سستا اور اسی چیز کو قسطوں پر زائد قیمت طے کرکے آگے فروخت کرنا جائز ہے، البتہ قسطوں پر خرید و فروخت جائز ، و صحیح ہونے کے لیے درج ذیل شرائط کی رعایت ضروری ہے:

۱- معاملہ  پہلے سے متعین کر لیا جائے کہ نقد کا ہے یا ادھار کا۔

لہٰذا معاملہ کو مبہم رکھنا  اس طور پر کہ اگر اس چیز کے نقد پیسے دو گے تو اتنے(مثلاً: پچاس روپے) دینے ہوں گے اوراگر قسطوں میں دو گے تو اتنے (مثلاً ساٹھ روپے) دینے ہوں گے، اور کوئی ایک صورت متعین  کئے بغیر  معاملہ مکمل کرلیا جائے تو یہ صورت ناجائز ہے۔

۲- قسطیں دینے کی مدت متعین ہو۔

۳- مجموعی قیمت (اور قسط کی رقم) متعین ہو۔

۴- کسی قسط (یا مکمل رقم) کی ادائیگی جلدی کرنے کی صورت میں قیمت میں کمی اور تاخیر کی صورت میں اضافہ (جرمانہ) وصول کرنے کی شرط نہ رکھی جائے ، اگر اضافہ (جرمانہ) کی شرط ہوگی تو پورا معاملہ ہی فاسد ہوجائے گا۔

پس معاملہ کرتے وقت اگر  مذکورہ بالا شرائط کی پاس داری کی جائے تو یہ  جائز ہے، اور اگر ان شرائط کی پاس داری نہ کی جائے تو اس صورت میں قسطوں پر خرید و فروخت کا معاملہ ہی فاسد ہوجائے گا۔

باقی کسی چیز کو ادھار فروخت کرنے کی صورت میں اس کی قیمت نقد معاملہ والی رقم سے زیادہ طے کرلینا جائز ہے  جیسا کہ ماقبل سطور میں گزرا، اور یہ زیادتی  سود بھی نہیں، کیوں کہ سود  شرعاً اس اضافہ کو  کہا جاتا ہے، جو عوض سے خالی ہو، جب کہ اس صورت میں ایک طرف ایک مبیع(فروخت کی جانے والی متعین چیز) اور دوسری طرف اس کے عوض میں طے شدہ قیمت ہے۔

جب کہ کسی بھی بینک سے قسطوں پر کوئی چیز  لینا جائز نہیں ہے؛  کیوں  کہ  روایتی  سودی  بینکوں  سے  قسطوں  پر کوئی  چیز  لینے کا معاملہ تو  بالکل  صاف طور سے سود پر مشتمل ہوتا ہے، جب کہ  مروجہ اسلامی بینکوں کا قسطوں پر کسی چیز دینے کا معاملہ بھی مکمل شرعی اصولوں کے مطابق نہیں ہے، بلکہ اس  معاملہ میں متعدد شرعی احکام کی خلاف ورزی لازم آتی ہے ، مثلا مروجہ اسلامی بینکوں  سے قسطوں پر کوئی چیز خریدتے وقت دو عقد بیک وقت ہوتے ہیں ،ایک عقد بیع کا ہوتا ہے جس کی بنا پر قسطوں کی شکل میں ادائیگی خریدار پر واجب ہوتی ہے اور اسی کے  ساتھ ہی (اجارہ) کرائے کا معاہدہ بھی ہوتا ہے، جس کی بنا پر ہر ماہ کرائے کی مد میں بینک خریدار سے کرایہ بھی وصول کرتا ہے، اور یہ دونوں عقد صورۃً یا حکمًا ایک ساتھ ہی کیے جاتے  ہیں جو  کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے درج ذیل فرمان کی وجہ سے ناجائز ہیں:

وفي سنن الترمذي  لمحمد بن عيسى بن سَوْرة الترمذي:

"عن أبي هريرة قال: «نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعة». وفي الباب عن عبد الله بن عمرو، وابن عمر، وابن مسعود: «حديث أبي هريرة حديث حسن صحيح»، والعمل على هذا عند أهل العلم، وقد فسر بعض أهل العلم قالوا: بيعتين في بيعة أن يقول: أبيعك هذا الثوب بنقد بعشرة، وبنسيئة بعشرين، ولايفارقه على أحد البيعين، فإذا فارقه على أحدهما فلا بأس إذا كانت العقدة على أحد منهما ... وهذا يفارق عن بيع بغير ثمن معلوم، ولايدري كل واحد منهما على ما وقعت عليه صفقته..." 

ترجمہ:" نبی کریمﷺ نے ایک بیع میں دو بیع کرنے سے منع فرمایا۔"

(أبواب البيوع، باب ماجاء في النهي عن بیعتین في بیعة، ج:۳،ص:۵۲۵،رقم: ۱۲۳۱،ط: مصطفى البابي الحلبي – مصر)

و في المبسو ط للسرخسي:

"وإذا عقدالعقد على أنه إلى أجل كذا بكذا وبالنقد بكذا أو قال: إلى شهر بكذا أو إلى شهرين بكذا فهو فاسد؛ لأنه لم يعاطه على ثمن معلوم ولنهي النبي صلى الله عليه وسلم عن شرطين في بيع، وهذا هو تفسير الشرطين في بيع ومطلق النهي يوجب الفساد في العقود الشرعية، وهذا إذا افترقا على هذا فإن كان يتراضيان بينهما ولم يتفرقا حتى قاطعه على ثمن معلوم، وأتما العقد عليه فهو جائز؛ لأنهما ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحة العقد ... الخ" 

(کتاب البیوع، باب البیوع الفاسدة، ج:۱۳، ص:۸، ط:دارالمعرفة) 

ہدایہ میں ہے:

«قال: "ومن اشترى غلاما بألف درهم نسيئة فباعه بربح مائة ولم يبين فعلم المشتري، فإن شاء رده، وإن شاء قبل"؛ لأن للأجل شبها بالمبيع؛ ألا يرى أنه يزاد في الثمن لأجل الأجل، والشبهة في هذا ملحقة بالحقيقة فصار كأنه اشترى شيئين وباع أحدهما مرابحة بثمنهما، والإقدام على المرابحة يوجب السلامة عن مثل هذه الخيانة، فإذا ظهرت يخير كما في العيب "و إن استهلكه ثم علم لزمه بألف ومائة"؛ لأن الأجل لا يقابله شيء من الثمن»

(كتاب البيوع‌‌،باب المرابحة والتولية،  (3/ 78)، ط: رحمانیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101807

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں