بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مرغی کی خوارک ادھار پر مہنگے داموں بیچنا


سوال

کوئی ایسا کاروبار ہو جس میں نقد پر ایک قیمت اور قرض پر دوسری قیمت ہو، میرا مقصد ہے کہ مرغی فارم کے لیے ہم جو خوراک لیتے ہیں اس وقت نقد پر 3000 پر دیتے  ہیں اور اگر قرض پر لیتے ہیں یعنی مرغی فروخت کرنے کے بعد پیسے دے گا تو  3150 سے لے کر 3250 تک دیتے ہیں ،تو کیا ایسا کاروبار جائز ہے  فارمر اور دکان دار دونوں کے  لیے؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں!

جواب

واضح رہے کہ خرید و فروخت کے شرعاً درست ہونے کے لیے  سودا کرتے وقت قیمت متعین کرنا (خواہ قیمت کم طے کرے یا زیادہ) شرعاً ضروری ہے، پس باہمی رضامندی سے نقد فروخت کرنے کی صورت میں کم قیمت اور ادھار  فروخت کرنے کی صورت میں زیادہ  قیمت متعین کرنا شرعاً درست ہے، بشرطیکہ عقد کے وقت نقد  یا ادھار کوئی ایک صورت متعین کردی جائے۔ نیز ادھار  فروخت کرنے  میں عقد کے صحیح ہونے کے لیے ایک شرط یہ بھی ہے کہ خریدار کی جانب سے قیمت کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں جرمانہ وغیرہ کے نام سے قیمت میں اضافہ  کی شرط نہ لگائی جائے، اور قیمت جلد ادا کرنے کی صورت میں خریدار کے ذمے سے واجب الادا قیمت میں کمی  کی شرط نہ لگائی جائے، بلکہ جو قیمت عقد کے وقت طے کردی گئی ہو اسی کے مطابق عقد انجام پذیر ہو،  اگر اس شرط کی خلاف ورزی کی گئی تو سودا  شرعاً درست نہیں ہوگا؛  لہذا مذکورہ صورت میں مرغی کی خوراک  ادھار پر زیادہ قیمت پر فروخت کرنا جائز ہے،البتہ یہ ضروری ہے کہ  جو قیمت مقرر کردی جائے اس میں کمی بیشی کی شرط نہ ہو اور کوئی  مدت متعین کرلی جائے،  جیسا کہ ایک  ہفتہ یا ایک ماہ  وغیرہ، مدت متعین کیے بغیر معاملہ نہ کیا جائے۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"ويزاد في الثمن لأجله إذا ذكر الأجل بمقابلة زيادة الثمن قصدًا".

(البحرالرائق، ج:6، ص:115، ط:مکتبة رشیدیة)

المحیط البرہانی میں ہے:

"قال: ولو اشترى نسيئةً لم يبعه مرابحةً حتى يبين؛ لأن الأجل نسبه كونه مبيعاً، فإنه يزاد في الثمن لأجل الأجل".

(المحيط البرهاني في الفقه النعماني، كتاب البيع، الفصل الخامس عشر: في بيع المرابحة والتولية والوضعية، ۷/۶)

المبسوط للسرخسي (13/ 7):

"وإذا عقد العقد على أنه إلى أجل كذا بكذا وبالنقد بكذا أو قال إلى شهر بكذا أو إلى شهرين بكذا فهو فاسد؛ لأنه لم يعاطه على ثمن معلوم ولنهي النبي صلى الله عليه وسلم عن شرطين في بيع وهذا هو تفسير الشرطين في بيع ومطلق النهي يوجب الفساد في العقود الشرعية وهذا إذا افترقا على هذا فإن كان يتراضيان بينهما ولم يتفرقا حتى قاطعه على ثمن معلوم، وأتما العقد عليه فهو جائز؛ لأنهما ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحة العقد".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 158):

" وكذا إذا قال: بعتك هذا العبد بألف درهم إلى سنة أو بألف وخمسمائة إلى سنتين؛ لأن الثمن مجهول، وقيل: هو الشرطان في بيع وقد روي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم «نهى عن شرطين في بيع» ولو باع شيئا بربح ده يازده ولم يعلم المشتري رأس ماله فالبيع فاسد حتى يعلم فيختار أو يدع هكذا روى ابن رستم عن محمد؛ لأنه إذا لم يعلم رأس ماله كان ثمنه مجهولا وجهالة الثمن تمنع صحة البيع فإذا علم ورضي به جاز البيع؛ لأن المانع من الجواز هو الجهالة عند العقد وقد زالت في المجلس وله حكم حالة العقد فصار كأنه كان معلوما عند العقد وإن لم يعلم به حتى إذا افترقا تقرر الفساد".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 61):

"وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ. والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200474

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں