بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ادھار پر زیادہ قیمت میں بیچنے کا حکم


سوال

 میرا سوال یہ ہے کہ میں  ایک ایسے علاقہ میں رہتاہوں  جہاں بہت لوگ فصل کے لئے دوائیں   وغیرہ  ادھار پر لیتےہیں،  مثال کے طور پر ایک دوا پانچ سو  روپیہ کی ہے، دکان دار  چھ ماہ  کے ادھار پر   800 روپیہ رقم وصول کرےگا ،کیا یہ درست کاروبار ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اشیاء کی   خرید و فروخت میں اصل حکم نقد خریداری کی طرح ادھار پر خریدنا بھی جائز ہے ،اسی بناء پر نقد اور ادھار کی قیمت میں فرق رکھنے میں بھی شرعا کوئی حرج نہیں ہے،بشرط یہ ہے کہ سودا کرتے وقت پیسوں کی ادائیگی کا وقت کے ساتھ  کسی ایک قیمت  کو(نقد وادھار کے  اعتبار سے) بھی متعین کر دیاجائے،لہذااگر سودا کرتے وقت نقد ہو یا ادھار کسی ایک متعین قیمت پر سودا ہوجائے  اور ادائیگی کا وقت بھی طے ہوجائے تو خریدار پر  اسی متعین مدت پر طے شدہ  قیمت ادا کرنا لازم ہوگی،سودے کےبعد خریدار چاہے جلد ادائیگی کرے یا  کسی مجبوری کی  وجہ سے تاخیر سے پیسے ادا کرے ،اُس پر وہی متعین قیمت ادا کرنا ہی  لازم ہوگی لہذا صورت مسئولہ میں پانچ سو روپے والی چھ مہینہ کے ادھار پر آٹھ سو روپے کی دینا درست ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"إذا قال: بعتك هذا العبد بألف درهم إلى سنة أو بألف وخمسمائة إلى سنتين؛ لأن الثمن مجهول .......فإذا علم ورضي به جاز البيع؛ لأن المانع من الجواز هو الجهالة عند العقد وقد زالت في المجلس وله حكم حالة العقد فصار كأنه كان معلوما عند العقد وإن لم يعلم به حتى إذا افترقا تقرر الفساد."

( کتاب البیوع  ، فصل فی شرائط الصحة فی البیوع جلد 5 ص: 158 ط: دارالکتب العلمیة)

دررالحکام فی شرح مجلۃ الاحکام

"إذا عقد البيع على تأجيل الثمن إلى كذا يوما أو شهرا أو سنة أو إلى وقت معلوم عند العاقدين كيوم قاسم أو النيروز صح البيع.

يعني أن التأجيل إذا كان بالأيام أو الشهور أو السنين أو بطريق آخر فهو صحيح ما دام الأجل معلوما (بحر) وعلى هذا إذا باع إنسان من آخر متاعا وهو صحيح وسلمه إليه ثم توفي فليس لورثته أن يأخذوا الثمن من المشتري قبل حلول الأجل؛ لأن الأجل الذي هو حق المدين لا يبطل بوفاة الدائن علي أفندي وهذه المادة فرع للمادة."

(الکتاب البیوع ، الفصل الثاني في بيان المسائل المتعلقة بالبيع بالنسيئة والتأجيل جلد 1 ص: 228 ط: دارالجیل)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144502102141

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں