بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ادھار پر کوئی چیز فروخت کرکے ادھار کی رقم کے علاوہ دیگر اخراجات وصول کرنا


سوال

میں گاؤں میں پرچون کی دکان چلاتا ہوں،یہاں لوگوں کے ذرائع آمدن نہ ہونے کے برابر ہیں،اس لیے لوگ محنت مزدوری کے لیے زیادہ تر کراچی کا رخ کرتے ہیں اور گاؤں میں موجود ان کی فیملیوں کو ہم دکان دار حضرات راشن وغیرہ ادھار پر دیتے ہیں،اس ادھار کا دورانیہ کم و بیش ایک سال کا ہوتا ہے،غرض ایک سال تک ہمارے پیسے پھنسے ہوئے ہوتے ہیں اور پھر اپنے اپنےادھار کی وصولی  کے لیے مجھ سمیت دیگر دکان دار حضرات سال میں ایک یا دو دفعہ کراچی آتے ہیں،کیوں کہ جن فیملیوں کو ہم نے گاؤں میں ادھار دیا ہوتا ہے،ان کے سربراہ کراچی میں ہوتے ہیں تو ان سے ادھار وصول کرنا ہوتا ہے،گاؤں سے کراچی آنے جانے اور یہاں تقریباً ایک مہینہ ٹھہر کر کھانے پینے اور مختلف علاقوں میں موجود اپنے گاہکوں(گاؤں میں موجود فیملیوں کے سربراہوں) کے پاس آنےجانے پر کافی خرچہ آتا ہے،اگر یہ خرچہ ہم اپنے گاہکوں سے وصول نہ کریں تو ہمیں بچت کے بجائے الٹا نقصان ہوجاتا ہے اور لوگوں کو بتا کر وصول کرنے میں علاقائی عرفی مروت مانع ہے،اس لیے ہم ان تمام اخراجات کو ٹوٹل کرکے ہر ایک گاہک کے کھاتے میں  اس کے ادھار  کے تناسب سے ڈال دیتے ہیں،جس کا ہمارے گاہکوں کو پتا نہیں ہوتا۔

اب سوال یہ ہے کہ اپنے گاہکوں سے ادھار رقم کے علاوہ مذکورہ اخراجات وصول کرنا ہمارے لیے از روئے شریعتِ مطہرہ جائز ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل اور دیگر دکان دار حضرات کا اپنےگاؤں میں موجود فیملیوں کو ادھار پر راشن دینا اور پھر ان فیملیوں کے سربراہوں سے ادھار کی وصولی کے وقت ان کو بتائے بغیر ادھار کی رقم کے علاوہ مذکورہ تمام اخراجات یعنی گاؤں سے کراچی آنے جانے،اسی طرح یہاں کھانے پینے اورمختلف علاقوں میں آنے جانے کا خرچہ وصول کرناشرعاً جائز نہیں ہے۔

 البتہ اگر ان فیملیوں کے سربراہوں  کے علم میں لاکراور ان کو بتا کر مذکورہ اخراجات وصول کیے جائیں اور وہ بھی اپنی خوشی اور رضامندی سے ان اخراجات کی ادائیگی کے لیے تیار ہوں،تو اس صورت میں ان سے مذکورہ تمام اخراجات وصول کرنا جائز ہوگا،ورنہ نہیں۔

اگر ان کو بتانے میں علاقائی عرفی مروت مانع ہے،تو پھر یہ طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے کہ ادھار پر راشن فروخت کرنے کی صورت میں اس کی قیمت میں اضافہ کرکے فروخت کیا جائے،تاکہ مذکورہ اخراجات کی وصولی اسی میں ہوجائے اور علیحدہ سےمذکورہ اخراجات کی وصولی کی ضرورت ہی نہ پیش آئے،البتہ اس صورت میں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ خرید و فروخت سےپہلے ہی اپنے گاہکوں کے ساتھ باہمی رضامندی سے یہ معاملہ طے کرلیا جائے کہ یہ راشن ادھار پر فروخت کیا جارہا ہے اوراس کی قیمت اتنی ہوگی،نیز اس صورت میں ادھار کی مدت معلوم ہونا بھی ضروری ہے،یعنی یہ بھی متعین کرنا ضروری ہے کہ ادھار کی ادائیگی کس وقت ہوگی اور اس مدت پر ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں کوئی اضافی قیمت وصول نہ کی جائے۔

حدیث شریف میں ہے:

"ألا لا تظلموا ألا لايحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه."

(مشکوٰۃ المصابیح، باب الغصب و العارية، ج:1، ص:261، ط:رحمانیه)

البحر الرائق میں ہے:

"لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير ‌سبب ‌شرعي."

کتاب الحدود،فصل في التعزیر، ج:5، ص:44، ط:دار الکتاب الإسلامی)

مبسوط سرخسی میں ہے:

"وإذا عقدالعقد على أنه إلى ‌أجل ‌كذا ‌بكذا وبالنقد بكذا أو قال إلى شهر بكذا أو إلى شهرين بكذا فهو فاسد؛ لأنه لم يعاطه على ثمن معلوم ولنهي النبي - صلى الله عليه وسلم - عن شرطين في بيع وهذا هو تفسير الشرطين في بيع ومطلق النهي يوجب الفساد في العقود الشرعيةوهذا إذا افترقا على هذا فإن كان يتراضيان بينهما ولم يتفرقا حتى قاطعه على ثمن معلوم، وأتما العقد عليه فهو جائز؛ لأنهما ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحة العقد."

(کتاب البیوع، باب البیوع الفاسدۃ، ج:13، ص:7، ط:دار المعرفة)

فتح القدیر میں ہے:

"فإن كون الثمن على ‌تقدير ‌النقد ألفا وعلى تقدير النسيئة ألفين ليس في معنى الربا."

(کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، ج:6، ص:447، ط:دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101149

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں