بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ادھار پیسوں پر زکات کا حکم


سوال

مجھے یہ بتائیں کہ جو رقم میں نے ادھار دی ہے  وہ مجھے نہیں پتا کہ کب واپس ملے گی؟  اس پر جو زکوٰۃ بنتی ہے،  وہ مجھے کب ادا کرنی چاہیے؟ اور اگر وہ رقم مجھے تین سال بعد ملے تو تین سال کی زکوٰۃ ادا کی جائے گی  یا ایک سال کی؟

جواب

صورتِ مسئولہ  میں اگر سائل کی ادھار پر دی ہوئی رقم تنہا یا دیگر اموالِ زکات کے ساتھ مل کر زکات کے نصاب کے برابر ہو اور اس پر سال گزر جائے تو اس پر زکات لازم ہے،  البتہ سائل کو یہ اختیار ہے کہ سالانہ زکات ادا کر دے یا وصول ہونے کے بعد   گزشتہ تمام  سالوں کی زکات حساب کر کے ادا کر دے،  مثال کے طور پر سائل نے کسی کو دو لاکھ ادھار دیے تھے، پھر تین سال بعد یہ رقم واپس ملی تو ان تین سالوں کی زکات نکالنا لازم ہے،  اس طرح کے پہلے سال کی زکات میں  دو لاکھ پر ڈھائی فیصد زکات نکالے گا، پھر جو بچ جائے اس کا ڈھائی فیصد دوسرے سال کی زکات اور اس کے بعد جو بچ جائے اس کا ڈھائی فیصد تیسرے سال کی زکات میں اد اکرے گا۔

بدائع الصنائع میں  ہے:

"وجملة الكلام في الديون أنها على ثلاث مراتب في قول أبي حنيفة: دين قوي، ودين ضعيف، ودين وسط كذا قال عامة مشايخنا أما القوي فهو الذي وجب بدلا عن مال التجارة كثمن عرض التجارة من ثياب التجارة، وعبيد التجارة، أو غلة مال التجارة ولا خلاف في وجوب الزكاة فيه إلا أنه لا يخاطب بأداء شيء من زكاة ما مضى ما لم يقبض أربعين درهما، فكلما قبض أربعين درهما أدى درهما واحدا".

(كتاب الزكاة، فصل وأما الشرائط التي ترجع إلى المال، 10/2، ط: سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وأما سائر الديون المقر بها فهي على ثلاث مراتب عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - ضعيف، وهو كل دين ملكه بغير فعله لا بدلا عن شيء نحو الميراث أو بفعله لا بدلا عن شيء كالوصية أو بفعله بدلا عما ليس بمال كالمهر وبدل الخلع والصلح عن دم العمد والدية وبدل الكتابة لا زكاة فيه عنده حتى يقبض نصابا ويحول عليه الحول. ووسط، وهو ما يجب بدلا عن مال ليس للتجارة كعبيد الخدمة وثياب البذلة إذا قبض مائتين زكى لما مضى في رواية الأصل وقوي، وهو ما يجب بدلا عن سلع التجارة إذا قبض أربعين زكى لما مضى كذا في الزاهدي".

(كتاب الزكاة وفيه ثمانية أبواب، الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها، 175/1، ط: رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصابا وحال الحول، لكن لا فورا بل (عند قبض أربعين درهما من الدين) القوي كقرض......وذكر في المنتقى: رجل له ثلثمائة درهم دين حال عليها ثلاثة أحوال فقبض مائتين، فعند أبي حنيفة يزكي للسنة الأولى خمسة وللثانية والثالثة أربعة أربعة من مائة وستين، ولا شيء عليه في الفضل؛ لأنه دون الأربعين. اهـ".

(كتاب الزكاة، باب زكاة المال، 305/2، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408102613

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں