بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ادھار معاملہ میں جلد ادائیگی کر کے ڈسکاؤنٹ حاصل کرنا


سوال

میں نے ایک لیپ ٹاپ 10 ماہ کی مدت پر 91800 (جس کی اصل قیمت 68000 ہے اور قسط کے 35٪ ملانے کے بعد 91800 بن رہا ہے) میں خریدا ہے، جس کی مدت ابھی تک مکمل نہیں ہے(صرف ایڈوانس ادا کیا ہے اور ایک مہینے کی قسط)۔

اب میں نے سوچا کہ اس قسط والے کے سارے پیسے اسے ایک ساتھ نقد دوں، مگر قسط والے رقم سے کچھ کم کرکے مثلا 91800 کے بجائے 81000 دوں تو یہ کیسا ہے؟ (اس میں معاملہ کو نقد بناکر دس ہزار قسط والی رقم سے، نہ کہ اصل قیمت سے کاٹا جارہا ہے)۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں خریدار اور فروخت کنندہ کے درمیان اگر یہ شرط لگائی جائے کہ  رقم یکمشت ادا کر نے کی صورت میں دس ہزار کم کر دی جائے گی تو ایسی شرط لگانا اور اس کے نتیجے میں ڈسکاؤنٹ حاصل کرنا جائز نہیں ہو گا۔

 تاہم   اگر  ایسی کوئی شرط نہیں لگائی  گئی اور  بیچنے والا خود بغیر کسی شرط کے اس رقم میں رعایت کر نا چاہے  تو کر سکتا ہے۔

 فتح القدیر میں ہے:

"قال ولو كانت له ألف مؤجلة فصالحه على خمسمائة حالة لم يجز لأن المعجل خير من المؤجل وهو غير مستحق بالعقد فيكون بإزاء ما حطه عنه وذلك اعتياض عن الأجل وهو حرام."

( كتاب الصلح، باب الصلح فى الدين، جلد:8، صفحہ: 426، طبع: مصطفیٰ البابی )

مجلة الاحكام العدلية   میں ہے:

" حط البائع مقدارا من الثمن المسمى بعد العقد صحيح ومعتبر."

(المادة: 256 ، صفحہ: 52، طبع:ميرمحمد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144503101537

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں