ہماری کریانے کی دکان ہے، ہم بہت سے لوگوں کو چیزیں ادھار پر دیتے ہیں، اور اس کا حساب کتاب ایک اکاؤنٹ بک پر لکھتے ہیں، ہم جو چیز ادھار پر دیتے ہیں اس کی قیمت زیادہ لکھتے ہیں، جس میں بعد میں تبدیلی نہیں کرتے کیا یہ ادھار پر زیادہ قیمت لکھنا جائز ہوگا؟
صورتِ مسئولہ میں سائل کا چیزوں کو ادھار بیچنے کی بناء پر نقد قیمت سے زیادہ قیمت مقرر کرنا اور اکاؤنٹ بک میں اس کی قیمت زیادہ لکھنا شرعاً ممنوع نہیں ہے،تاہم یہ ضروری ہے کہ خریدار کوادھار کی وجہ سے اضافی قیمت بتادی جائے ۔
فتاوی شامی میں ہے:
"لأن الأجل في نفسه ليس بمال، فلا يقابله شيء حقيقة إذا لم يشترط زيادة الثمن بمقابلته قصدا، ويزاد في الثمن لأجله إذا ذكر الأجل بمقابلة زيادة الثمن قصدا".
(کتاب البیوع، باب المرابحة والتولية، ج:5، ص:142، ط:سعيد)
فتاوی شامی میں ہے:
"وفي النتف: بيع المضطر وشراؤه فاسد.
(قوله بيع المضطر وشراؤه فاسد) هو أن يضطر الرجل إلى طعام أو شراب أو لباس أو غيرها ولا يبيعها البائع إلا بأكثر من ثمنها بكثير، وكذلك في الشراء منه كذا في المنح."
(کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، ج:5، ص:59، ط:سعید)
فتاوی مفتی محمود میں ایک سوال کے جواب میں ہے:
"ازدیاد علی الثمن المثل اگر فاحش ہو تو حالت اضطرار میں مفسد بیع ہے مطلب بيع المضطر وشراؤههو أن يضطر الرجل إلى طعام أو شراب أو لباس أو غيرها ولا يبيعها البائع إلا بأكثر من ثمنها بكثير، وكذلك في الشراء منه كذا في المنحالخ اور حالت اختیار میں مکروہ خلاف مروت ہے۔ وہ حد جس سے آگے غبن فاحش ہوتا ہے صاحب ہدایہ اور دوسرے فقہاء نے بیان کی ہے۔ ۔۔۔۔۔ یہ یاد رہے کہ ثمن مؤجل چونکہ عرف میں حال سے زیادہ ہوتا ہے تو اس میں ازدیاد فاحش اپنے اعتبار سے ہوگا اور ثمن حال میں اپنے اعتبار سے ۔ لہذا ممکن ہے کہ ایک نرخ نقد میں تو غبن فاحش ہو اور موجل میں وہ فاحش نہ ہو۔ تو نقد میں نرخ سے کراہت ہوگی اور موجل میں نہ ہوگی۔"
(خرید و فروخت کا بیان، ج:8، ص:242، ط:جمعیۃ پبلیکیشنز)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144505100671
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن