بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ادھار خرید و فرخت کا حکم


سوال

میرے ذمے کسی کے 8 لاکھ روپے قرضہ ہے، میں نے کھاد والے سے سودا کیا کہ چار ماہ کے بعد میں رقم دوں گا۔ کھاد کے 8 لاکھ بنتے ہیں اور وہ کہتا ہے  کہ چار ماہ کے بعد 9 لاکھ دیں گے، کیا یہ سودا ٹھیک ہے؟

جواب

واضح رہے کہ خرید و فروخت کے شرعاً درست ہونے کے لیے  سودا کرتے وقت قیمت متعین کرنا (خواہ قیمت کم طے کرے یا زیادہ) شرعاً ضروری ہے، پس باہمی رضامندی سے نقد فروخت کرنے کی صورت میں کم قیمت اور ادھار فروخت کرنے کی صورت میں زیادہ قیمت متعین کرنا تو شرعاً درست ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ  عقد کے وقت نقد یا ادھار کوئی ایک صورت متعین کردی جائے۔

نیز ادھار فروخت کرنے میں عقد کے صحیح ہونے کے لیے ایک شرط یہ بھی ہے کہ خریدار کی جانب سے قیمت کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں جرمانہ وغیرہ کے نام سے قیمت میں اضافہ نہ کیا جائے،   اگر اس شرط کی خلاف ورزی کی گئی تو سودا  شرعاً درست نہیں ہوگا۔
صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص نے قرضہ کسی اور سے لیا تھا اور بعد میں کھاد کا عقد کسی اور سے کر رہا ہے اور چار ماہ کی ادھاری کی وجہ سے آٹھ لاکھ کی کھاد کی قیمت وہ اس سے نو لاکھ مانگ رہا ہے تو یہ عقد درست ہے، البتہ ابتدا سے ہی ایک قیمت مقرر کی جائے،  جس میں جلد ادائیگی کی صورت میں کمی اور تاخیر سے ادا کرنے کی صورت میں اضافے کی شرط نہ ہو۔

 اگر اس کا سودا ابتدا ہی سے کھاد والے سے آٹھ لاکھ میں ہوا تھا، جس کی وجہ سے یہ کھاد والے کا آٹھ لاکھ کا مقروض تھا اور بعد میں چار ماہ  تاخیر  سے ادائیگی کی وجہ سے کھاد والا اس پر ایک لاکھ کا جرمانہ لگاتا ہے اور اس سے نو لاکھ کا مطالبہ کرتا ہے تو یہ صورت جائز نہیں ہے۔

المبسوط للسرخسی میں ہے:

’’وإذا عقد العقد علی أنه إلی أجل بکذا وبالنقد بکذا أو (قال:) إلی شهر بکذا وإلی شهرین بکذا فهو فاسد؛ لأنه لم یعامله علی ثمن معلوم ولنهي النبي ﷺ یوجب شرطین في بیع، وهذا هو تفسیر الشرطین في البیع، ومطلق النهي یوجب الفساد في العقد الشرعیة، وهذا إذا افترقا علی هذا ... فإن کان یتراضیان بینهما ولم یتفرقا حتی قاطعه علی ثمن معلوم وأتما العقدَ فهو جائز؛ لأنهما ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحة العقد الخ‘‘

(المبسوط للسرخسي،ج:۸،ص:۱۳)

بدائع الصنائع میں ہے:

’’وکذا إذا قال: بعتك هذا العبد بألف درهم إلی سنة أو بألف وخمسمائة إلی سنتین؛ لأن الثمن مجهول ... فإذا علم ورضي به جاز البیع؛ لأن المانع من الجواز هو الجهالة عند العقد وقد زالت في المجلس وله حکم حالة العقد، فصار کأنه کان معلوماً عند العقد وإن لم یعلم به حتی إذا افترقا تقرر الفساد‘‘.

(بدائع الصنائع ،ج:۵،ص:۱۵۸)

فتاویٰ شامی میں ہے:

’’وفي شرح الآثار: التعزیر بأخذ المال کان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. والحاصل أن المذهب عدم التعزیر بأخذ المال‘‘.

(الفتاوی الشامیة، ج:۳، ص:۶۱-۶۲،ط:سعید) 

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144112200312

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں