بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ادھار خرید و فروخت کا حکم


سوال

میرے پاس ایک چیز ہے جسکی قیمت موجودہ وقت میں 10 لاکھ روپے ہے لیکن میں پیسے ایک سال بعد  12 لاکھ لیتا ہوں تو کیا وہ پیسے جائز ہوں گے یا سود کے زمرے میں جائیں گے؟

جواب

واضح رہے کہ سوداکرتے وقت نقد یا ادھار میں سے کسی ایک کو متعین کرنا اور کوئی بھی  ایک قیمت متعین طے کرنا شرعًا ضروری ہے، لہذا عقد کے  وقت ادھار کے تعین کے ساتھ باہمی رضا مندی سے   دس لاکھ والی چیز کو بارہ لاکھ  میں فروخت کرنا جائز ہے،کیوں کہ  ادھار پر فروخت کرتے ہوئے زیادہ قیمت مقرر کرنا شرعًا ممنوع  نہیں، بشرطیکہ عقد کے وقت ایک قیمت متعین کردی جائے اور پھر مقررہ وقت سے تاخیر کی صورت میں جرمانہ وغیرہ کے نام سے اضافہ کی شرط نہ لگائی جائے،اور قیمت جلد ادا کرنے کی صورت میں خریدار کے ذمے سے واجب الادا قیمت میں کمی  کی شرط نہ لگائی جائے، بلکہ جو قیمت عقد کے وقت طے کردی گئی ہو اسی کے مطابق عقد انجام پذیر ہو،  اگر اس کی خلاف ورزی کی گئی تو سودا  شرعاً درست نہیں ہوگا۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"ويزاد في الثمن لأجله إذا ذكر الأجل بمقابلة زيادة الثمن قصدًا".

(البحرالرائق، ج:6، ص:115، ط:مکتبة رشیدیة)

المحیط البرہانی میں ہے:

"قال: ولو اشترى نسيئةً لم يبعه مرابحةً حتى يبين؛ لأن الأجل نسبه كونه مبيعاً، فإنه يزاد في الثمن لأجل الأجل".

(المحيط البرهاني في الفقه النعماني، كتاب البيع، الفصل الخامس عشر: في بيع المرابحة والتولية والوضعية، ۷/۶)

وفي المبسوط للسرخسي :

"وإذا عقد العقد على أنه إلى أجل كذا بكذا وبالنقد بكذا أو قال إلى شهر بكذا أو إلى شهرين بكذا فهو فاسد؛ لأنه لم يعاطه على ثمن معلوم ولنهي النبي صلى الله عليه وسلم عن شرطين في بيع وهذا هو تفسير الشرطين في بيع ومطلق النهي يوجب الفساد في العقود الشرعية وهذا إذا افترقا على هذا فإن كان يتراضيان بينهما ولم يتفرقا حتى قاطعه على ثمن معلوم، وأتما العقد عليه فهو جائز؛ لأنهما ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحة العقد".

(13/ 7)

وفي بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع :

" وكذا إذا قال: بعتك هذا العبد بألف درهم إلى سنة أو بألف وخمسمائة إلى سنتين؛ لأن الثمن مجهول، وقيل: هو الشرطان في بيع وقد روي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم «نهى عن شرطين في بيع» ولو باع شيئا بربح ده يازده ولم يعلم المشتري رأس ماله فالبيع فاسد حتى يعلم فيختار أو يدع هكذا روى ابن رستم عن محمد؛ لأنه إذا لم يعلم رأس ماله كان ثمنه مجهولا وجهالة الثمن تمنع صحة البيع فإذا علم ورضي به جاز البيع؛ لأن المانع من الجواز هو الجهالة عند العقد وقد زالت في المجلس وله حكم حالة العقد فصار كأنه كان معلوما عند العقد وإن لم يعلم به حتى إذا افترقا تقرر الفساد".

(5/ 158)

فتح القدیر میں ہے:

"(قوله ويجوز البيع بثمن حال ومؤجل) لإطلاق قوله تعالى {وأحل الله البيع} [البقرة: 275] وعنه عليه الصلاة والسلام «أنه اشترى من يهودي طعاما إلى أجل معلوم ورهنه درعه» . ولا بد أن يكون الأجل معلوما؛ لأن الجهالة فيه مانعة من التسليم الواجب بالعقد، فهذا يطالبه به في قريب المدة، وهذا يسلمه في بعيدها."

(كتاب البيوع، ج:6، ص:261، ط:دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507100539

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں