بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ادھار خرید و فروخت کا حکم


سوال

ہمارا ٹائم پر (یعنی ادھار خرید و فروخت) بیچنے کا کاروبار ہے، اس کے اندر تفصیل اس طرح ہے کہ ہم نقد رقم پر گاڑی  موٹر سائیکل اور  موٹر کار وغیرہ خرید لیتے ہیں اور پھر اس کو اکثر اوقات نقد کے بجائےادھار پر آگے ٹائم کے نام سے بیچتے ہیں، تو کیا یہ درست ہے؟

2.دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ  کبھی کبھی اس طرح ہوتا ہے کہ کوئی آدمی ہمارے پاس آ جاتا ہے گاڑی خریدنے کے لیے، جب کہ ہمارے پاس گاڑی موجود نہیں ہوتی،ہم اس آدمی کو کہہ دیتے ہیں کہ میں بارگین سے خرید کر دیدوں گا،پھر بارگین میں جاکر گاڑی خرید کر اس آدمی کو آگے منافع پر ایک مقررہ وقت پر بیچ دیتے ہیں،پھر وہ آدمی یعنی مشتری کبھی کبھار تو اپنے لیے رکھ لیتا ہے اور کبھی کبھار اسی وقت اسی بارگین والوں کے اوپر نقد قیمت پر بیچ دیتا ہے اور کبھی کبھار کسی اور کو بیچ دیتا ہے،مثلا اس چیز کی نقد قیمت ایک لاکھ روپے ہوتی ہے اور ٹائم پر یہ آدمی اس کو ڈیڑھ لاکھ میں  خرید لیتا ہے اور پھر اسی وقت ایک لاکھ نقد پر کسی اور کے ہاتھ بیچ دیتا ہے، اس میں بنیادی بات یہ ہوتی ہے ،یہ ٹائم پر خرید لیتے ہیں جو کہ ڈیڑھ لاکھ میں اور نقد قیمت اس کی کم ہوتی ہے اور پھر نقد پر بیچ دیتا ہے، اب سوال یہ ہےکہ اس طرح کی بیع کرنا جائز ہے یا نہیں؟ یعنی ٹائم پر گاڑی بیچنا۔

ہمارے علاقے کے بعض علماءفرماتے ہیں کہ یہ جائز نہیں ہے،اس میں بیع عینہ پائی جاتی ہے،وہ فرماتے ہےکہ یہ سود کے لیے ایک حیلہ ہے ۔

براہ کرم شریعت کی روشنی میں فرمائیں  کہ آیا یہ جائز ہے یا نہیں؟  اگر یہ ناجائز ہے،تو علاقے کے اکثر لوگ آج کل اس میں مشغول ہیں، اس کی بناء پر اس پر جواز یا خفت کا حکم لگایا جاسکتا ہے؟

جواب

1۔واضح رہے کہ  گاڑی نقد پر خرید کر قبضہ کرنےکےبعدآگے اُدھار پر بیچنا  اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ عقد یعنی سودا طے ہونے کے وقت ہی پوری قیمت متعین کی جائے اور جو قیمت بھی متعین ہووہ وصول کی جائے، بعد میں اس قیمت میں کوئی اضافہ نہ کیا جائے ۔

2۔ صورتِ مسئولہ میں اگر ڈیڑھ لاکھ میں  گاڑی خریدنے والا شخص گاڑی پر قبضہ کرنےکےبعد اپنے بائع کے علاوہ کسی اور کو  وہ گاڑی نقد ایک لاکھ روپے میں فروخت کردے اور بائع کا اس سے کوئی تعلق نہ ہو، تو یہ صورت جائز ہے، چاہے وہ ڈیڑھ لاکھ کی رقم ادا کرنے کے بعد بیچے یا اس سےپہلے بیچے اور اگر مذکورہ شخص یہ گاڑی براہ رست بارگین والے سے ڈیڑھ لاکھ میں خریدکرپوری قیمت اداکرنےسےپہلےاسی کو ایک لاکھ روپے میں  نقد پر بیچ دے تو یہ صورت جائزنہیں ہے۔ 

فتح القدیر میں ہے:

"(قوله ويجوز البيع بثمن حال ومؤجل) لإطلاق قوله تعالى {وأحل الله البيع} [البقرة: 275] وعنه عليه الصلاة والسلام «أنه اشترى من يهودي طعاما إلى أجل معلوم ورهنه درعه» . ولا بد أن يكون الأجل معلوما؛ لأن الجهالة فيه مانعة من التسليم الواجب بالعقد، فهذا يطالبه به في قريب المدة، وهذا يسلمه في بعيدها."

(كتاب البيوع، ج:6، ص:261، ط:دار الفكر)

رد المحتار میں ہے:

"(قوله: في ‌بيع ‌العينة) اختلف المشايخ في تفسير العينة التي ورد النهي عنها. قال بعضهم: تفسيرها أن يأتي الرجل المحتاج إلى آخر ويستقرضه عشرة دراهم ولا يرغب المقرض في الإقراض طمعا في فضل لا يناله بالقرض فيقول لا أقرضك، ولكن أبيعك هذا الثوب إن شئت باثني عشر درهما وقيمته في السوق عشرة ليبيعه في السوق بعشرة فيرضى به المستقرض فيبيعه كذلك، فيحصل لرب الثوب درهمان وللمشتري قرض عشرة."

(كتاب البيوع، ج:5، ص:273، ط: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144401100326

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں