میرے ایک دوست کو رکشہ خریدنا ہے، اس کے پاس رقم نہیں ہے، وہ قسطوں پر ڈیڑھ لاکھ کا لے رہا ہے۔ وہی رکشہ نقد میں پچھتر ہزار کا ہے۔ ایسے میں ہم ہی میں سے ایک دوست نہ اس کو آفر کی کہ میں تقد میں خرید کر تمہیں ایک لاکھ میں بیچ دوں گا۔ تم مجھے پانچ ہزار ماہانہ دے دینا۔ اس سودے پر دونوں راضی ہیں۔ برائے مہربانی بتادیں کہ کیا یہ سودا سود تو نہیں۔
یہ خرید و فروخت کا معاملہ ہے، پچھتر ہزار میں نقد خرید کر نفع رکھ کر لاکھ روہے میں ادھار پر بیچا جا رہا ہے، اس لیے یہ سود نہیں،ادہار خرید وفروخت کا معاملہ ہے اور جائز ہے۔ البتہ رکشہ خریدنے کے بعد خریدار بیچنے کا اور جس کو چاہیے وہ لازمی طور پر خریدنے کا پابند نہیں۔
فتوی نمبر : 143512200011
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن